Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عزتِ نفس سے مالا مال قوم ہی عروج پر پہنچتی ہے

بھیک مانگ کر پیٹ بھرنا مہذب معا شرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے
 تسنیم امجد ۔ریا ض
تر قی پذ یر ممالک میں عو ر تیں مردوں کے شا نہ بشانہ کام کرنے میں فخر محسوس کر تی ہیں ۔مشر قی معا شرے میں یہ بند شو ں کے با وجود وقت پڑ نے پر نہایت جا نفشانی سے اپنے گھر کی حفا ظت میں مصروف ہو کر فخر محسوس کرتی ہیں ۔پاکستانی خواتین بہت با ہمت ہیں ۔اس کا واضح ثبوت دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ہے ۔گھر گر ہستی کی شو قین کا اس طرح دکان پر بیٹھنا بہت مشکل ہے لیکن آ فرین ہے ایسی خواتین پر جو کسی کے آ گے ہا تھ نہیں پھیلا تیں ۔ہم ایسی بہت سی خواتین کو جا نتے ہیں جو اپنے بچو ں کو خود محنت کر کے کھلا تی ہیں ۔ہمارے ہاں کی عورت اپنی صنفی نزاکت کو بھول کر حالات کی سختی کا مقابلہ خندہ پیشانی سے کرتی ہے ۔
حال ہی میں آپا بتا رہی تھیں کہ ان کے پڑوس میں ایک خاتون کام کرتی تھی۔صبح آ تی اور شام مغرب پر اسے واپس جاتے دیکھا جا تا تھا۔ایک دن وہ صبح دس بجے ہی کو نے والے در خت کے نیچے بیٹھی رو رہی تھی ۔میں نے گا ڑی روکی اور پو چھا تو بو لی کہ میڈم نے ایک اور ملازمہ رکھ لی ہے ۔مجھے بتایا ہی نہیں کہ اب میری ضرورت نہیں رہی۔یو ں اچا نک نو کری سے جواب دے دیا ۔میرا قصور بھی کو ئی نہیں تھا۔
میڈم کا کہنا ہے کہ یہ ملا زمہ میرے میکے سے آ ئی ہے ۔ما ں نے کہا ہے کہ اسے ضرور رکھنا ہے ۔میں تم سے خوش تھی لیکن کیا کریں مجبوری ہے ۔آپا نے اسے حو صلہ دیا اور کہا کہ فکر نہ کرو میں کچھ انتظام کر تی ہو ں ۔اسے گھر لا کر کہا کہ تم قریب کے پارک میں شام پا نچ بجے سے رات تک کچھ کھانے پینے کی اشیاءاور کچھ کھلونے لگا کر بیٹھو۔مجھے یقین ہے کہ تمہاری مشکل آ سان ہو جا ئے گی ۔اس نے میری مدد لینے سے انکار کیا ۔میرے ا صرار پر قر ض کی صورت میں کچھ رقم لینے پررا ضی ہو گئی ۔اب وہ روزانہ چادر بچھا کر پارک کے کو نے میں بیٹھنے لگی تھی۔سردی کی شامیں تھیں ،اس کی چائے خوب بکتی ۔وقت ایسے ہی گزر گیا ۔
ایک دن وہ آ ئی تو اس کے ہاتھ میں پیسے تھے ۔بو لی میڈم ،آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ۔اللہ کریم کااحسان ہے کہ آپ کے بتائے ہوئے را ستے پر چلنے سے میں اس قابل ہو گئی کی گھر کا خر چہ بھی پورا ہونے لگا اور اپنے بچوں کو بھی پڑ ھانے کا وقت مل گیا ۔وہیں پارک میں بچو ں کو لے جاتی ہوں ۔اب میں اس قابل ہوں کہ آپ کا قر ضہ اتار دوں ۔اس نے مٹھی میں دبے نو ٹ میری طرف بڑ ھا دیئے۔میں نے محبت سے اسے گلے سے لگا لیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ لو ۔وہ کچھ بضد ہوئی مگرپھر مان گئی ۔گو کہ رقم بہت کم تھی لیکن اس کی مدد سے مجھے جو سکون ملا ،اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا ۔
وطن میں ایسی این جی اوز ہیں جو خواتین کی مدد کرتی ہیں لیکن پھر بھی ہمارے ہاں غربت کا تناسب اتنا زیادہ ہے کہ بیشتر خواتین بھیک ما نگنے پر مجبور ہوجا تی ہیں۔ہماری خواتین ہمت و قربانی کی مثال ہیں۔ وہ بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ایک ہی دن میں کئی کئی جگہوں پر کام کر تی ہیں ۔بھکارن بننا پڑے تو تب بھی اپنے حصے کا کھانا گھر والوں کے لئے رکھ لیتی ہیں ۔شو ہروں کے مظالم کو بھی خا مو شی سے سہ لیتی ہیں ۔خوش نصیبی ہے اس ہستی کی کہ اللہ کریم نے اسکے پا ﺅ ں تلے جنت رکھی ہے ۔ان حالات کے پیشِ نظر حکومت کے تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔ضرورت مندوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔بھیک ما نگنے وا لوں کا سر وے ضروری ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کتنے ہی ایسے مجبور ہوں جو کسی کے آ گے ہاتھ نہ پھیلانا چا ہتے ہو ںلیکن ان کی بے بسی انہیں یہ سب کرنے پر مجبور کر تی ہو ۔یہ لوگ بھی انسان ہیں اور انا رکھتے ہیں ۔اس سلسلے میں ٹیمیں تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہایت ایمانداری سے ہر علاقے میں ان لوگوں سے مل کر ان کی مرضی کے مطابق انہیں کام کرنے کی تر غیب دیں۔پیشہ ور بھکاریوں اور مجبوربھکاریوں میں فرق واضح کر کے اس کا تدارک ضروری ہے ۔
آزادی کے بعد سے جس طرح پا لیسیاں بنیںان پر عمل کرنا نا ممکن رہا ۔کچھ تو افسرشاہی کی بے جا مدا خلت رہی اور کچھ لا پر وائی ۔یہ حقیقت ہے کہ قو میں وہی تر قی کر تی ہیں جو غورو فکر سے اپنے حالات کو سنوارتی ہیں ۔ہر طبقے کی فکر کر تی ہیں ۔ہمارا دعویٰ ہے کہ ہماری خواندگی کی شر ح 73فیصد ہے جبکہ یو نیسکو نے یہ شرح 17فیصد بتائی ہے ۔اس میں 10فیصدامراءہونگے جو صرف سنگھار کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔جذبہ حب ا لوطنی کے تحت آ گے بڑ ھنے سے ہی معا ملات خا طر خواہ انداز میں حل ہو تے ہیں ۔
ہماری معیشت زر عی ہے لیکن ہم اس شعبے میں بھی خود کفیل نہیں ۔لوگ آخر رو ٹی کے محتاج کیوںہیں ؟ہمارے ہاں خالی پیٹ ہی کئی برا ئیو ں کی جڑ ہے ۔کیا سچ کہا گیا ہے کہ:
 بھوک بہت سفاک ہو تی ہے 
کسی فرقے کسی مذہب سے اس کا وا سطہ کیسا 
تڑ پتی آ نت میں جب بھوک کا شعلہ بھڑ کتا ہے 
تو وہ تہذیب کے بے رنگ کا غذ کو 
تمدن کی سبھی جھو ٹی دلیلو ں کو 
جلا کر راکھ کرتا ہے 
ہمارے ہاں لوگ سلوٹ کے قا بل ہیں ۔کمی صرف اس جذبے کی ہے جو ایک دوسرے کاہا تھ تھا منے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ امراءکو خوف ہے کہ کہیں ان کی دولت میں کمی نہ ہو جائے ۔قوم کے بچو ں کے لئے سو چنا حکومت کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی فرض ہے ۔ورنہ یہ پیشہ ور گدا گروں کے ہتھے چڑھ کر جرائم کی شر ح میں ا ضافہ کریں گے ۔وطن میں گداگری بھی کاروبار کی طرح پھیل چکی ہے ۔اس کی حو صلہ افزائی عوام کے رویے سے ہو تی ہے جو دعا دینے وا لوں کو خا لی ہاتھ نہیں جانے دیتے۔پیشہ ور بھکاری تجربہ رکھتے ہیں کہ کس طرح لو گو ں کی جیبو ں سے پیسے نکلوانے ہیں ۔بعض شقی ا لقلب لو گو ں نے گداگری کے ادارے کھول رکھے ہیںجو انہیں تجارتی بنیادوں پر چلا تے ہیں۔ بچوں ،جوانوں اور بو ڑھوں کو لنگڑا ،لو لا بنا کر کا نپناو لر ز نا سکھا یا جاتا ہے۔یہ لوگ بچوں کو اغوا بھی کرتے ہیںاور اپنی تجارت چمکاتے ہیں۔ اب تو ایسے لوگ اچھے اچھے رہا ئشی علاقوں میں رہنے لگے ہیں ۔ان کے رہن سہن سے محسوس ہی نہیں ہو تا کہ یہ کسی گھنا ﺅ نے کاروبار میں ملوث ہیں ۔ان لوگوں کی پشت پناہی قا نون کے رکھوالے بھی کرتے ہیں ۔افسوس ہے ان پر جو چند سکوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں۔ 
گزشتہ دنوں ایک سروے نظر سے گزرا جس میں اس حقیقت کا انکشاف کیا گیا تھا کہ گداگری ایک صنعت کی صورت اختیار کر چکی ہے ۔اس کی آ مدنی کا انحصار علاقے پر ہے ۔رش والے علاقے سے ایک ہزار روپے فی بھکاری کمانا بہت آ سان ہے ۔رمضان ا لمبارک اور عید پر تو ان کی پا نچوںانگلیاں گھی میں ہو تی ہیں ۔ایک ہی گھر کے چار ،پانچ افراد جب روزانہ اتنا کما کر لا ئیں گے تو محنت مزدوری کے چند سو کو کون خا طرمیں لائے گا؟ اس سلسلے میں قوا نین بھی پرانے ہیں جو بد لتے حالات پر پورے نہیں اتر تے ۔حکو متیں مہم چلاتی ہیں تو یہ بھکاری ادھر ادھر چھپ کر اپنابچاﺅ کر لیتے ہیں اورپھر باہر نکل آ تے ہیں ۔اس سلسلے میں حکومت اور عوام کو مل کر منصوبہ بندی کر نا ہو گی۔
ایک اور سروے کے مطابق وطن کی کل آ بادی میں 25ملین بھکاری ہیں ۔ان کو معاشرے کے ” پیرا سا ئٹ“ یعنی طفیلئے کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔پرانے وقتو ں میں گدا گری بہت کم تھی کیو نکہ زندگی سادہ تھی اب تو اپنے مو بائل کو چارج کرنے کے لئے اور رات بھراس کے استعمال کے لئے بھی بھیک مانگی جا تی ہے ۔یہ سب عیا شی کے زمرے میں آ تا ہے ۔
کاش ہم جا ن لیں کہ بھیک مانگ کر پیٹ بھرنا مہذب معا شرے کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے ۔کوئی بھی قوم بام عروج پر اسی وقت پہنچتی ہے جب وہ عزتِ نفس کی دولت سے مالا مال ہو۔

شیئر: