Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹیم کو پریکٹس کا موقع نہیں ملا، نتیجہ تو یہی ہونا تھا

کھلاڑیو ں کو غیر ملکی دورے سے قبل تیز وکٹوں پر پریکٹس میچ کھلائے جائیں
صلاح الدین حیدر۔ کراچی
انگریزی میں کہاوت ہے ”Writing on the wall“ اردو میں اس کا قریب تر ترجمہ نوشتہ دیوار ہی ہوسکتا ہے۔ انسان غلطیاں کرے اور دوش نصیب کو دے، کہاں کا انصاف ہے۔ جنوبی افریقہ میں ایک بار پھر پاکستان کو ہزیمت اٹھانا پڑی جس کا افسوس ہے لیکن اب تک کھیلی گئی 13 سیریز میں جنوبی افریقہ میں پاکستان کی یہ گیارہویں شکست تھی۔ 3 ٹیسٹ کی سیریز میں تینوں میچ ہار جانا چند اہم سوالات کو جنم دیتا ہے۔ تیز وکٹوں پر کھیلنا ذہن اور ہمت کی آزمائش ہی نہیں، تکنیک کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے جس کی ہمارے کھلاڑیوں میں بہت کمی تھی۔ بابر اعظم، اسد شفیق، اظہر علی جس طرح باونسر پر آوٹ ہوئے وہ گلی، سڑکوں پر کھیلنے والے کرکٹر کے لئے باعث شرمندگی ہوگا۔ بہت سال پہلے دنیائے کرکٹ میں مانے ہوئے بیٹسمین ظہیر عباس جسے ایشین بریڈ مین کہا جاتا تھا کراچی میں ٹیسٹ میچ کے دوران باونسر پر نیچے جھکے لیکن بلا ہوا میں معلق رہا، گیند بیٹ کا کنارہ چھوتے ہوئے سیدھی وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں۔ تماشائیوں نے نعرے لگا لگا کر اس کا برا حال کردیا۔ آج وہی غلطی ہمارے بہترین کھلاڑی ایک نہیں بار بار دہرا رہے ہیں۔ انہیں جاوید میانداد سے سبق لینا چاہئے جس کا فٹ ورک اور بیٹنگ میں مہارت دکھانے سے تعلق رکھتی تھی۔ حنیف محمد کی پرانی ویڈیو مل سکے تو دیکھیں کہ وہ کیسے اور کتنی پھرتی سے باونسر سے بچتے تھے۔ تیز وکٹوں پر کھیلنے کیلئے آنکھوں کا صحیح ہونا بھی لازمی ہے۔ ویوین رچرڈ اور ماجد خان کی آنکھیں اتنی تیز تھیں کہ وہ پہلے سے بال کی رفتار اور موومنٹ کا اندازہ لگا لیا کرتے تھے۔ دونوں ہی اپنے زمانے کے مانے ہوئے بیٹسمین تھے۔ دو باتیں فوری توجہ کی طالب ہیں۔ ایک تو لاہور اور کراچی کی کرکٹ اکیڈمی میں تیز وکٹیں بنائی جائیں اور ان پر عامر، عباس فہیم اشرف اور حسن علی جیسے بولروں کے سامنے پریکٹس میچ کروائے جائیں دوسرا آئندہ کسی بھی بیرونی دورے پر پاکستانی ٹیم کو ٹیسٹ میچوں، ایک روزہ یا ٹی ٹوئنٹی کی تیاری کیلئے بہت پہلے سے پہنچ جانا چاہیے تاکہ وہ اصل مقابلے سے پہلے دوسری ٹیموں کے خلاف پریکٹس کر کے اپنے آپ کو تیار کر سکے اس مرتبہ ٹیم کو پریکٹس کا موقع ہی نہیں ملا۔ نتیجہ تو پھر یہی ہونا تھا۔ میچ کے چوتھے روز پاکستان نے اپنی دوسری اننگز کل کے 3 وکٹوں پر 153 رنز کے اسکور پر شروع کی لیکن بابر اعظم ویسے ہی بلا اٹھاتے ہوئے باونسر پر آوٹ ہوئے ظاہر ہے کہ اسد شفیق اور سرفراز آخری جوڑی تھی جن سے کچھ امید کی جا سکتی تھی لیکن کپتان سرفراز کو نہ جانے کیا ہوگیا ہے۔ آج پھر پہلی گیند پر کلین بولڈ ہوگئے۔ شاید ٹیم کی ناقص کارکردگی کا پریشر ان کے ذہن پر بہت تھا لیکن اگر شاداب 7 چوکوں کی مدد سے 47 رنز کی بہترین اننگز کھیل سکتے ہیں تو مڈل آرڈر کو کیا ہوجاتا ہے۔کھلاڑی اپنی وکٹیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ 6 اننگز میں پاکستان نے صرف 2 بار 200 رنز سے زیادہ بنائے۔ اسد شفیق کے 65 رنز جس میں 11 شاندار چوکے شامل تھے آخر کب تک تنہا مقابلہ کرتے۔ دوسری طرف سے کھلاڑی مسلسل آوٹ ہوتے رہے تھے۔ ظاہر ہے بھول چوک ہوسکتی ہے۔ آخر میں انہیں شاٹ کھیلنے پڑا مگر قیمت بھی ادا کرنا پڑی جیتنے کیلئے 381 رنز کا تعاقب بیکار تھا۔ خاص کر ایک ایسی ٹیم سے جو اپنے جوہر دکھانے میں بری طرح ناکام رہی۔ پاکستان ٹیم 273 پر آوٹ ہوگئی اور جنوبی افریقہ نے ایک بار پھر وائٹ واش کر کے جیت کا جھومر اپنے ماتھے پر سجا لیا۔ آلیویئر اور ربادا نے 3،3 وکٹیں 74 اور 75 رنز کے عوض جبکہ ڈیل اسٹین نے 2 اور فلینڈر نے ایک وکٹ لی۔
 کھیلوں کی مزید خبریں اور تجزیئے پڑھنے کیلئے واٹس ایپ گروپ"اردو نیوزاسپورٹس"جوائن کریں

شیئر: