Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نبی اکرم ﷺ بحیثیت تاجر

   
نبی اکرم تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ اورصدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں ’’صادق وامین ‘‘
کے لقب سے مشہور ہو گئے
 
 مفتی محمد راشد ڈسکوی۔کراچی

کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کیلئے اللہ رب العزت کی طرف سے رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ: اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پْرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے(الاحزاب21)۔
     رسول() سے رہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناؤ۔ گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی رہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل رہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہو، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار،شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کَش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ،اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں رہنمائی ملے تو اس کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے۔مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کھڑا کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاؤ۔تفسیر ابن کثیر میں آیتِ بالا کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
    " یہ آیت کریمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔"
      یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے امتِ محمدیہؐ  کی آسانی اور سہولت کی خاطر جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں۔جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق بھی ہے اور محبت کا تقاضا بھی اور یہ بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے 12 دن یاپورے مہینے کے لیے ہی نہیںبلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے کے لیے ہے۔
      ان سطور سے مقصود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں بلکہ صرف آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے۔آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزقِ حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ اْستوار رکھا۔ نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کے 2حصے ہیں۔ ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا۔ اول الذکر کا دورانیہ40 سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ23 سال۔اس دوسرے حصے کے پھر 2  حصے ہیں۔ ایک: مکی دور اور دوسرا: مدنی دور۔
    نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت  :
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے کوئی خوش الحال دور نہیں تھا لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسرکر رہے تھے البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔
    والد کی طرف سے ملنے  والی میراث :
     جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میراث میں صرف 5 اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ’’ام ایمن‘‘ تھا (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی25 سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا)۔ اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی، ملاحظہ ہو:
    ’’ترک عبدُاللّٰہ بنْ عبدِ المطلبْ اُ مَ ایمنَ وخمسۃَ احمالِ اوارکَ، یعنی: تاکل الاراک، وقطعۃ غنم، فورث ذٰلک رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر وفات عبد اللہ بن عبد المطلب)۔
      میراث میں ملنے والی اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتی، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی ابتداء ً  نہیں کیا تھا بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا تو پھر ان کو خیال آیاکہ چلو خالی ہاتھ واپس جانے کے بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے۔
    دادا  اور  چچا کی کفالت میں :
      ان ابتدائی2 سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب کرتے رہے۔2سال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔دادا کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت اپنے ذمہ لے لی۔ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا تھے جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے چنانچہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے تھے۔
    بکریاں چرانا :
    مکہ مکرمہ میں حصولِ معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنے معاش کے بارے میں از خود فکر کی۔ ابتدا ء ً  اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی بلکہ یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیز اور پھرتیلی ہوتی ہیں، انھیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور کے قابو سے باہر ہونے کی صورت میں ان پر غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں۔ اس بنا پر بکریاں چرانے والوں میں کافی تحمل پیدا ہو جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں۔
    صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ نے بھی چرائیں ؟
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
    " ہاں! میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔"(صحیح البخاری، کتاب الاجارات، باب رعی الغنم علی قراریط)۔
    حدیث مبارکہ کے عربی متن میں’’قراریط‘‘ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ۔بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے۔اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ’’اجیاد‘‘کاپرانا نام ہے۔اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں۔علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے(التوضیح لشرح الجامع الصحیح ، کتاب الاجارات، باب رعی الغنم)۔
    اسی طرح ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے۔ صحابہؓ  بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاؤ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اُس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا (صحیح ابن حبان، کتاب الاجارۃ)۔     
    ملکِ شام کی طرف پہلا  سفر  :
      نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف 2 سفر کیے۔ پہلا سفر اپنے چچا کے ہمراہ،لیکن اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ تاجر شریک نہ تھے بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ کے چچا نے آپ کو ساتھ لیا تھا۔ اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیاجس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا (الطبقات الکبریٰ، ذکر ابی طالب وضمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیہ، وخروجہ معہ الی الشام فی المرۃ الاولی)۔
    ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر:
    اور دوسرا سفر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم 25برس کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے۔ خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاؤ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا۔ یہ گفتگو حضرت خدیجہؓ  کو معلوم ہوئی تو انہوں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج کر بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی۔اس پر ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کر بھیجا ہے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہؓ  کا غلام ’’میسرہ ‘‘بھی تھا۔ جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔
    دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی۔ اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاؤ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
     ’’مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَاِنّی الَأمُرُّفَأعْرِضُ عَنْھُمَا‘‘ ۔
    "میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔"
    اس شخص نے یہ بات سن کر کہا: حق بات تو وہی ہے جو تم نے کہی۔ پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: خدا کی قسم، یہ تو وہی نبی ہے جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
    تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تو2فرشتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر رہے ہوتے تھے۔یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا۔ شام کے سفر سے ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہؓ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ2 فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا۔حضرت خدیجہؓ  اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفعِ کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں توآپؓ بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔حضرت خدیجہؓ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی (ملخّص من الطبقات الکبریٰ، ذکر خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الشام فی المرۃ الثانیۃ، ذکر تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجۃ بنت خویلد )۔
    یمن کی طرف2 سفر:
    جو تجارتی اسفار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں 2سفر یمن کی طرف بھی تھے۔امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے:
    ’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف2 بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔
    بحرین کی طرف سفر:
    نبوت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انہی وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ ہاں میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں(مسند احمد بن حنبل، بقیۃ حدیث وفد عبد القیس )۔
    تجارتی اسفار میں رسول کے خصائلِ  حمیدہ:
    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسنِ معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ’’صادق وامین ‘‘کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔

(جاری ہے)
 
مزید پڑھیں:- - - - -رحمتِ، رحمۃ للعالمین

شیئر: