Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوقات کار میں لچک

برجس حمود البرجس۔ مکہ
    مختلف ممالک میں بہت ساری کمپنیاں اوقات کار میں لچک رکھتی ہیں۔ ملازمین کو اوقات کار اپنانے کے سلسلے میں ان کے حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ سوچ یہ ہے کہ اگر ملازم کو آسانی ملے گی تو اس سے اس کی کارکردگی ،کام سے اس کی دلچسپی اور پیداوار پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔
    اوقات کار میں لچک سے ملازم کو اپنے حالات سے نمٹنے کا موقع ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ملازم کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی ڈیوٹی بچے کو اسکول، بیٹی کو یونیورسٹی یا بیوی کو اس کے دفترپہنچانے کے بعد شروع کرسکتا ہے تو اس سے ملازم کی کارکردگی بہتر ہوگی۔بعض ملازم ایسے ہوتے ہیں جن کے سامنے بیٹے ، بیٹی یا بیوی کو کہیں پہنچانے کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا تاہم وہ ڈیوٹی دیر یا جلدی سے شروع کرنے کا فیصلہ ٹریفک اژدہام سے بچنے کیلئے کرتے ہیں۔جو لوگ ٹریفک اژدہام میں پھنسے بغیر کام پر پہنچتے ہیں وہ اپنی ڈیوٹی زیادہ بہتر شکل میں انجام دینے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
    اوقات کار میں لچک کی بات کرتے وقت میرے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ کسی بھی کارکن کو اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع بالکل نہیں ملنا چاہئے۔ اگر کوئی کارکن اس سہولت کو بنیاد بناکر تاخیر سے آنے کو اپنا وتیرہ بنالے تو اس کا مداوافنگر پرنٹس کے ذریعے کیا جاسکتا ہے جس سے کارکن کے دفتر آنے اورجانے کے اوقات کی صحیح اور دقیق ترین نشاندہی ہوسکتی ہے۔
    میں اوقات کار میں لچک کے حوالے سے بعض مثالیں پیش کرنا چاہونگا۔
     اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بات مان لینی چاہئے کہ جب جب ملازم کو اوقات کار میں سہولت ملتی ہے تب تب اس کی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ اوقات کار میں لچک تمام کاموں میں نہیں دی جاسکتی ۔ مثال کے طور پر اسکولوں کو ہی لے لیجئے کہ اسکولوں کے کارکنان کو اوقات کار میں سہولت دینے سے پورا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے۔ کچھ سہولتیں دی جاسکتی ہیں۔علاوہ ازیںبعض کمپنیوں کے چند شعبے ایسے ہوتے ہیں جن میں لچک کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے، دیگر میں اس کا امکان نہیں ہوتا۔ ایسے عالم میں کمپنی ایک شعبے کے کارکن سے دوسرے شعبے کا کام لیکر نقصان کا تدارک کرسکتی ہے۔
    بہت ساری بیرونی کمپنیاں ایسی ہیں جہاں ڈیوٹی کا آغاز صبح 7بجے ہوتا ہے ، سہ پہر 4بجے تک ڈیوٹی چلتی ہے۔ ایک گھنٹہ کا وقفہ لنچ کیلئے دیا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے کارکنا ن کو یہ اختیار دیتی ہیں کہ اگر وہ گھر سے لنچ ٹفن لیکر آیا ہو اور وہ بغیر وقفے کے ڈیوٹی جاری رکھنا چاہتا ہو ، لنچ ڈیوٹی کے دوران ہی کرنا پسند کرتا ہو تو ایسے کارکن کو 7بجے کے بجائے 8بجے سے ڈیوٹی یا آخری وقت میں ایک گھنٹے کی سہولت دینے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔
    میں قارئین کا قیمتی وقت نہیں لونگا۔ایک تجربے کا تذکرہ ضرور کرنا چاہونگا۔ ایک کمپنی نے اپنے ملازمین کو یہ سہولت دی کہ وہ 2ہفتے میں 10دن کے بجائے 9دن ڈیوٹی دے سکتے ہیں اور ہر دوہفتے میں ایک ویک اینڈ پر 3دن کی چھٹی کرسکتے ہیں بشرطیکہ باقی ماندہ 9ایام کے دوران وہ یومیہ 45منٹ کی اضافی ڈیوٹی دینے پر راضی ہوں۔ ظاہر ہے کہ ایک سہولت کیلئے کارکن کو قربانی بھی دینا ہوگی۔بعض کمپنیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں 100کے لگ بھگ افراد کام کرتے ہیں۔انہیں 8گھنٹے کے بجائے11گھنٹے ڈیوٹی دینے پر سہولت دینے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔
    میری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ملازمین کو برطرف کرنے یا ان کی تعداد گھٹانے کی کوئی ضرورت نہیں۔اسی طرح بجٹ کم کرنے کیلئے اوقات کار میں کمی بھی لازمی نہیں ۔اس کی بہتر شکل یہ ہے کہ ہر کارکن اپنی پیداوار میں اضافہ کرے۔ کارخانے اور دفتر میں پیداوار بڑھے گی، مارکیٹنگ کا سلسلہ اچھا ہوگاتو آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح کمپنی کا قد اونچا ہوگا۔ مالکان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ملازم مشینیں نہیں بلکہ کمپنی کو اپنی فکر ، اچھوتے پن اور نیک نیتی کے بل پر کامیابی اور عروج پر لے جانے کی ضامن ذریعہ ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -عالمی اقتصاد میں مملکت کا کردار

شیئر: