Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک ریاض کی بے بسی

کراچی ( صلاح الدین حیدر) عدالت عظمیٰ جس کے بارے میں عام تاثر یہی تھا کہ جسٹس ثاقب نثار کے ریٹائر ہونے کے بعد اس کے طریقہ کار میں تبدیلی آجائے گی اور وہ سارے لوگ جو امید لگائے بیٹھے تھے کہ نئے چیف جسٹس کے آتے ہی ان کی مصیبت کے دن ختم ہوجائیں گے، انہیں شدید مایوسی ہوئی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے صرف ایک دن پہلے حکم دیا کہ ملک کے رئیس ترین عمارتی بلڈر اور پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے گھروں کا جال بچھانے والے ملک ریاض کو ملیر میں لاکھوں ایکڑ زمین کوڑیوں کے بھاو خریدنے کے عوض 358 ارب روپے کی قیمت سے کہیں زیادہ ادا کرنا چاہیے۔ملک ریاض جو کہ زرداری کے پارٹنر بھی ہیں، پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں حکم چلانے کے فرائض پر مامور تھے۔ کرسی صدارت پر بیٹھ کر سیکرٹریوں اور اعلیٰ حکام کو احکامات جاری کرتے تھے۔جب ان کے خلاف آواز اٹھتی تھی تو وہ تجوری کا منہ کھول کر ناقدوں کا منہ بند کرنے میں ملکہ رکھتے تھے۔اب وہ سپریم کورٹ کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔پہلے تو انہوں نے 250 ارب کی رقم پیشکش کی جسے سپریم کورٹ نے رد کردیا۔ اب ان کی 358 ارب روپے کی رقم بھی ناکافی قرار دے دی گئی ۔ جسٹس عظمت سعید نے 29 جنوری کو دوبارہ پیشی کی تاریخ مقرر کی ہے جب زمین کی اصل قیمت کا اندازہ لگایا جائے گا۔ جج صاحب نے تمام لوگوں کو بشمول قومی احتساب بیورو کو نوٹس جاری کردیئے ہیں کہ آکر اپنا مقدمہ پیش کریں۔غیر حاضری ناقابل قبول ہوگی۔ ملک ریاض کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ملک ریاض نے 150 ارب روپے کی 7068 ایکڑ زمین خریدی ۔ ملک ریاض کا یہ بھی کہنا تھا کہ کل واجب الادا رقم 358 ارب روپے 8 برسوں میں قسطوں میں ادا کی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی 1993ءمیں قائم تھی تاکہ عوام الناس کو مکان بنانے کے لئے زمین سستے داموں مہیا کی جائے لیکن بعد میں یہ قطعہ اراضی ملک ریاض کو دے دی گئی۔ ظاہر ہے اس عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو ٹھیس پہنچی۔ دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتا ہے؟
 

شیئر: