Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاپتہ افراد کا مسئلہ کب حل ہوگا؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر) پاکستان خاص طور پر کراچی میں لوگوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت پہلی مرتبہ پر عزم دکھائی دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، ساہیوال کے دلخراش واقعے کے بعد اب سنگین جرم کی بیخ کنی کیلئے نئے منصوبے بنارہے ہیں تاکہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کی جاسکے۔ انہوں نے ایک اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اغواءبرائے تاوان اور لوگوں کو گھر سے اٹھا کر لاپتہ  کردینے والوں کا فوری کھوج لگایا جائے اور ان پر فوجداری دفعات کے تحت مقدمات چلائے جائیں۔ یہ بہت بڑا قدم ہوگا بشرطیکہ اس پر صحیح طور سے عمل کیا جائے۔ ان پر مقدمات پاکستان پینل کوڈ کے تحت قائم کئے جائیں گے۔ فیصلہ ملک میں چیخ و پکار کی وجہ سے ہوا بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل نے وزیراعظم سے ملاقات کر کے اس بات پر سخت احتجاج کیا تھا کہ ان کے حمایتیوں کو بڑی تعداد میں (کچھ لوگ اس تعداد کو 15000 ) تک گنتے ہیں) اغواءکیا گیا اور بعد میں ان کا آج تک پتا نہیں چلا۔ یہ ایک اسلامی اور جمہوری ملک کےلئے باعث شرم ہے۔ اجلاس کے بعد اعلان کیا گیا کہ حکومت نے پینل کوڈ میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان افراد یا تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے جو کہ معصوم لوگوں کو گھروں سے اٹھاکر انہیں غائب کردیتے ہیں پھر یا تو برسوں لاپتہ افراد  کا کچھ پتہ نہیں چلتا یا پھر ا نکی لاش کسی نا معلوم مقام پر ملتی ہے۔ ایسے تمام افراد اور تنظیموں کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں تاکہ ایک آزاد ملک میں لوگ سکھ کا سانس لے سکیں۔ اغوا کرنے والوں پر سول عدالتوں میں مقدمات چلانے کے فیصلے سے صاف ظاہر ہے کہ فوجی عدالتوں کا کردار بتدریج کم کرنے کی یہ پہلی کوشش ہے۔ اکثر رینجرز پر الزام لگتا ہے کہ یہ لوگوں کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر پہنچا دیتے ہیں۔ بجائے اس کے انہیں فوری طور پر عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے، ایسا کرنا انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے تمام تر واقعات زیادہ تر کراچی، قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں وقوع پذیر ہونے کی اطلاعات کافی عرصے سے آتی رہی ہیں۔ ان کے ورثاءنے کئی بار احتجاج بھی کیا لیکن ماضی کی حکومتوں نے خوف کے مارے ان باتوں پر دھیان نہیں دیا تاہم عمران نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ملاقات کر کے شاید اس کا حل نکال لیا ہو۔ فوجی عدالتوں پر ابھی تک بحث جاری ہے اور گو کہ عمران اور ن لیگ ان عدالتوں کی بحالی پر تیار ہیں لیکن ن لیگ کی کچھ شرطیں بھی ہیں۔ پیپلز پارٹی ان عدالتوں کی مخالف ہے۔ پچھلے سال 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ جو افراد اور تنظیمیں لوگوں کو زور زبردستی گھروں سے اٹھاتی ہیں اور پھر انہیں نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیتی ہیں ان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ چلایا جائے۔
 

شیئر: