Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان جدیدیت کی راہ پر

***صلاح الدین حیدر***
عمران خان نے 22 سال تک ٹھوکریں کھانے کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے شہر شہر، قریہ قریہ، گائوں گائوں دھکے کھاتے پھرے لیکن نیت صحیح ہو تو راستے کے تمام پتھر خود ہی ہٹ جاتے ہیں، یہی اُن کے ساتھ بھی ہوا۔ جہدِ مسلسل کی وجہ سے کامیابیوں نے اُن کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ لوگوں نے اُن کی آواز پر لبیک کہا، اُن کے ماتھے پر بالآخر جیت کا جھومر سجا ہی دیا۔ مسندِ اقتدار پر بیٹھ تو گئے لیکن تجربے کی کمی آڑے آگئی اور ایک کے بعد دوسری غلطیوں نے مشکلات پیدا کردیں۔ دو بڑی وجوہ اُن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئیں۔ ایک تو بلند بانگ دعوے، دوسری حالات کی مجبوریاں۔ عزائم تو بہت عمدہ اور درخشاں مستقبل کی ضمانت تھے لیکن دُنیا کے اصولوں کو نظرانداز کرکے دُنیاوی مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ کہنے کو عمران نے کہہ دیا تھا مرجائیں گے، بے غیرتی کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن حالات پر کسی کا زور نہیں۔ 
منزل تک پہنچنے کیلئے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے، آخرت کی بات تو اور ہے، دُنیا میں دُنیا والوں کے ساتھ چلنا ہی پڑتا ہے۔ عمران کو بھی انتخابات جیتنے کے لیے ایسے لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑا جنہیں وہ دل میں جگہ دینے کیلئے تیار نہ تھے۔ منزل کو پانے کیلئے کانٹوں، پہاڑوں، گردِ راہ، پتھروں پر چلے بغیر منزل اکثر و بیشتر دُور ہی نہیں مدھم ہوتی چلی جاتی ہے، آج جو اُنہیں سخت سست سننے کو مل رہی ہیں، وجہ اس کی صرف یہی ہے کہ ٹیم اُن کی خواہش کے مطابق نہیں بن سکی۔ پھر بھی میں عمران خان کی طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں، اُن کے عزم و ہمت پر شبہ نہیں کیا جاسکتا۔
بہت سارے منصوبے اُن کے سینے کے اندر پیچ و تاب کھارہے ہیں لیکن ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیسوں کی ضرورت قدم قدم پر پڑتی ہے۔ خزانہ جب خالی ہو تو پھر عزائم بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اﷲ وحدہ لاشریک نے مدد کی اور مسلم ممالک سے امداد نے اُن کے ارادوں کو تقویت بخشی۔ غربت کا خاتمہ، بدعنوانوں سے پاک معاشرہ، نظام تعلیم کی درستی کسی بھی ارادے سے پیچھے نہیں ہٹے، بس وقت اور وسائل درکار تھے، دیر سویر تو ہوتی ہی رہتی ہے۔ کون سی دُنیا کی طاقت ایسی ہے جو غیب سے لڑ سکے۔ موت کا اگر ایک دن مقرر ہے تو مالکِ کائنات کے پاس بھی ہر موقع محل کی تکمیل کا وقت پہلے سے موجود ہے۔ قدرت کے قانون میں کبھی تبدیلی نہیں ہوتی، عمران مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے بعد اپنے ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کیلئے بے چین تو ضرور تھے، لیکن قدرت کے آگے بے بس۔ پھر بھی اُنہوں نے کئی ایک اقدامات ایسے کیے جن پہ رشک آتا ہے۔ خارجہ پالیسی کی کامیابی کے بعد اب دوسرے اہم کاموں پر توجہ مرکوز کرنا لازمی ہے۔ شروعات تو کردی ہے، صحت کارڈ کا اجرا شاندار کارنامہ ہے، غربت دُور کرنا آسان نہیں، بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں مگر غربت دُور کرنے کا ہدف حاصل کرنے کیلئے صحت کارڈ پہلا مگر بہت اہم قدم ہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ کارڈ پہلے ہی نافذ ہوچکے ہیں۔ اب پنجاب میں 9 لاکھ افراد کو یہ کارڈ دیئے جائیں گے جس کے تحت غریب غربا اور اہل خانہ کے لیے سال میں 97 ہزار روپے کا علاج، دوائیوں کیلئے پیسے کے بغیر ہی کام چل جائے گا۔ غریب عوام کیلئے تو یہ خوشی کا پیغام ہے۔
ہمارے معاشرے میں غربا کیلئے صحت و تعلیم کے حوالے سے ریاست اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر ہے۔ بے چارے بیماری کی حالت میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں، کچھ تو درد کا مداوا میسر ہوگا۔ 22 کروڑ کیلئے یہ صحت کارڈ درجہ بدرجہ تقسیم کیے جائیں گے۔ اﷲ کرے راہ میں کوئی رُکاوٹ نہ آئے۔
ترقی پذیر ممالک میں صحت اور تعلیم ریاست کی ذمے داریاں ہوتی ہیں۔ برطانیہ، کینیڈا وغیرہ میں تو علاج معالجے کی سہولتیں مفت ہوتی ہیں۔ امریکہ میں ہر شہری کے پاس انشورنس کارڈ ہوتا ہے، اُسے اپنے اور اہل خانہ کے علاج معالجے پر خرچ نہیں کرنا پڑتا، سارا بوجھ انشورنس کمپنیوں کے سپرد ہوتا ہے۔ حکومت اس بات پر تو زور دیتی ہے کہ عوام ٹیکس ادا کریں۔ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ ٹیکس دینے کے بعد اُنہیں کیا فائدہ ہوگا۔ بیمار ہوگئے تو علاج نہیں، تعلیم کیلئے فیسیں کہاں سے لائیں، گھر کے اخراجات کیسے چلائیں؟ رئوسا، اُمرا کی بات کرنا فضول ہے، اُن کے پاس تو دولت کے انبار ہیں، اُنہیں یا ہمارے وزرا، پارلیمان کے ارکان کو فرصت ہی نہیں کہ اُن کی خیریت تک معلوم کرسکیں، ووٹ لیے اور بس اپنا گھر بھرنے میں مصروف ہوگئے، غریب گیا بھاڑ میں، اُن کی بلا سے۔یتیموں، بیوائوں، لاچاروں، حاجت مندوں کا اﷲ ہی حافظ ہے۔ عمران خان نے کم از کم اُن معاملات کو اہمیت دی جن پر اُن سے پہلے کسی کی توجہ نہ تھی، صحت کارڈ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بہت بڑی نعمت سے کم نہیں، اﷲ کرے یہ کام خیر و عافیت سے انجام کو پہنچے اور لوگوں کو صحیح معنوں میں فائدہ ہو۔ انگلستان میں بچّے کی پیدائش کے وقت اسپتال کا خرچہ تو حکومت برداشت کرتی ہے، لیکن ساتھ ہی زچّہ بچّہ کے لیے سامان، دودھ اور روز دودھ کی 2 بوتلیں گھر پر پہنچا دی جاتی ہیں، یہ سب حکومت کی ذمے داری ہے۔ 
ہمارے ملک میں لوگ ٹیکس دیتے ہیں اور انہیں کچھ بھی نہیں ملتا۔ تعلیم، صحت، علاج وغیرہ کیلئے علیحدہ سے بوجھ برداشت کریں۔ اس پس منظر میں صحت کارڈ اور دوسرے ایسے ہی منصوبے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جلد مکمل ہونے چاہئیں۔ ہمت اور ارادے مضبوط ہوں تو قدرت بھی مدد کرتی ہے۔ عمران کو اپنے اصولوں سے ہٹنا نہیں چاہیے، ہاں کچھ تبدیلیاں اپنی ٹیم میں کرنی ضروری ہیں۔ نواز شریف نے صحت کارڈ کو اپنا منصوبہ قرار دیا، بات تو صحیح کی، اُنہوں نے اپنے آخری دنوں میں اس اسکیم کا اجرا کیا تھا، لیکن وقت نہیں مل سکا ویسے بھی اُن کے دل میں کھوٹ تھا، جو شخص اپنی ضروریات کی خاطر مفادِ عامہ کو قربان کردے، اُس کی بات پر کیسے اعتماد کرلیں۔ دعا ہے عمران خان اپنے ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ (آمین)۔
 

شیئر: