Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد

 
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ 
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی اور مشتمل ڈویژن بنچ نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کی درخواست مسترد کر دی۔
اسلام آباد  میں اردو نیوز کے نامہ نگار اعظم خان کے مطابق جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کمرہ عدالت میں فیصلہ سنانے کے  لیے تشریف لائے اور اپنے  مختصر فیصلہ میں کہا کہ درخواستیں مسترد کی جاتی ہے۔ اس کے بعد دونوں ججز کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر 20   فروری کو سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا ۔  
خیال رہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سات سال قید کی سزا پر نواز شریف اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قید ہیں ۔ 
فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہائیکورٹ کا کمرہ عدالت وکلا اور صحافیوں سے کھچا کھچ بھر گیا تھا ۔ 
نواز شریف نے 24 دسمبر 2018 کوالعزیزیہ ملزریفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی جانب سے سنائی گئی سزا کو  اسلام آبادہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے  تاہم ان کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی الگ سے بھی درخواست دائر کی تھی۔  
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس طلب کی تھیں۔  عدالت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہے، اور یہ کہ ان کی صحت کے حوالے سے ہمیں تشویش ہے ۔ 
ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کے سامنے نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ نواز شریف کی 3 جنوری کو طبیعت خراب ہوئی لیکن 5 فروری کو سزا معطلی کے لیے دائر درخواست میںاس کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرٹ اور طبی بنیادوںپر دائر کی گئی دونوں درخواستوں میں نواز شریف نے ضمانت کے لیے ایک ہی طرح کا مؤقف اپنایا ہے ۔ 
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ سزا ہونے کے بعد جیل میں یہ میڈیکل کی صورت حال بنی ۔  میڈیکل گرانڈ کا میرٹ اور نہ ہی ٹرائل سے تعلق ہوتا ہے، ماضی کی ہسٹری ہو یا نہ ہو، کسی بھی وقت کوئی بھی بیمار ہو سکتا ہے ۔
جسٹس محسن اختر نے نیب کے پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ کیا آپ کو پتہ ہے آپ آئندہ ہفتے بیمار ہو جائیں گے؟۔ انہوں نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ میرٹ والی درخواست ضمانت مکمل طور پر مختلف ہے ۔
خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو نیب نے ستمبر 2017 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس دائر کیے تھے جن میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ نواز شریف کے اثاثے ان کے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں ۔ 
احتساب عدالت نے نواز شریف کو  فلیگ شپ ریفرنس میںالزمات سے بری کردیا تھا تاہم العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سات برس قید اور تقریبا پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا تھا ۔  
دریں اثناء مسلم لیگ ن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی سزا معطلی اور ضمانت کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق عدالت عالیہ اسلام آباد کے باہر ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالتی فیصلے سے مایوسی ہوئی کیونکہ 5 میڈیکل بورشز کی جانب سے نواز شریف کی بیماری کی تشخیص اور فوری علاج کی سفارش کی گئی تھی۔شاہد خاقان عباسی کا مزید کہنا تھا کہ پوری امید تھی کہ ہائیکورٹ علاج کے لیے ضمانت کی درخواست قبول کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا ہے اور اس کا بھی کرتے ہیں، جو بھی مزید قانونی راستے ہیں ان کو اپنایا جائے گا۔ نوازشریف کو جو علاج چاہیے وہ جیل میں میسر نہیں ہوتا۔  اس کے لیے باہر ہونا ضروری ہے اور اسی لیے درخواست ڈالی گئی، علاج پاکستان اور باہر بھی ہوسکتاہے لیکن جیل میں نہیں ہوسکتا۔ اس موقع پر سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ جتنے قانونی راستے دستیاب ہیں وہ اپنائیں گے کیونکہ یہ ہمارا حق ہے ، ہم اپیل میں بھی جائیں گے ، قوی امید ہے انصاف ملے گا۔

شیئر: