Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امن کی شاہراہ کشمیر سے گزرتی ہے

کراچی ( صلاح الدین حیدر ) بچپن سے سنتے آئے تھے کہ ہند نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ پاک ہند تعلقات میں اتار چڑھاو تو آتے رہے ہیں۔ تعلقات کبھی ا چھے رہے تو کبھی خراب لیکن آج کل جو حالات ہیں ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا سعی لاحاصل ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے بغیر کسی سیز فائر کے ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کو جسے خود انہوں نے جذبہ خیر سگالی کا نام دیا، رہا کر کے پاکستانی پیغام سے تعبیر کیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم اپنی کرسی کےلئے خود اپنے ملک کی سلامتی کو داو پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ثالثی کی تمام تجویز مسترد کردیں۔ وینکتش ورما نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ روس نے ثالثی کے پیشکش نہیں کی اگر کرینگے تو مسترد کردیں گے۔ سعودی وزیر خارجہ کا دورہ ہند و پاکستان بھی ایک ہفتے کیلئے موخر کردیا گیا لیکن دنیا نے تو عمران خان کی امن کی خواہش کو سراہا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان اور امیر قطر، پائلٹ کی رہائی کے معترف ہیں، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ہند اور پاکستان کو مذاکرات کا مشورہ دیا۔ متحدہ عرب امارات میں ہونےوالی او آئی سی وزراءخارجہ کے اجلاس نے پاکستان کے نقطہ نظر کی دل کھول کر حمایت کی۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ہوتے ہوئے اجلاس نے پاکستان اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے اصول کو تسلیم کیا۔ ہند کا نقطہ نظر کہ دشتگرد ملکوں کی مذمت کی جائے کو رد کردیا گیا۔ دنیا پاکستان کے موقف کو تسلیم کرچکی ہے۔ ہندوستانی ارکان پارلیمان، امریکی صدر، ترک صدر سب نے ہی پاکستان کے جذبہ خیرسگالی کو سراہا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے خوشی کا اظہار کیا کہ حالات میں بہتری نظر آرہی ہے۔ خود ہند نے اس کا اعتراف کیا تو پھر آخر وہ کیا چیز مانع ہے جو خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ خود بی جے پی کے ایک لیڈر نے ایک ویڈیو لیک کر کے سارے ہندوستانیوں کو حیرت زدہ کردیا کہ انتخابات جیتنے کےلئے کیا حربے اختیار کیا جا رہے ہیں۔ یہ کیسی لیڈر شپ ہے؟ ہند نے پلوامہ کے سانحہ پر ڈوزائیر پاکستان کو بھیجا ہے اس میں پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ وزارت خارجہ اس کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے لیکن جو باتیں اب تک سامنے آئی ہیں ان کی جانچ پڑتال سے پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوتا۔ صورتحال ابھی تک کشیدہ ہے بلکہ جنگ جیسے حالات ابھی تک باقی ہیں۔ ہند نے بحیرہ عرب میں اسکورپین سب میرین تعینات کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی ایئر فورس اور نیوی بھی ریڈ الرٹ پر ہیں۔ ہند کو یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانستان میں امن کی جانب جانے والی سڑک کشمیر سے گزرتی ہے۔ دنیا نے کشمیر میں ہونے والے جدوجہد کا نوٹس لینا شروع کردیا ہے۔ اب تو اقوام متحدہ بھی کشمیر کے حالات سے پریشان ہے۔ عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ہر قسم کی بات چیت پر راضی ہے لیکن گفتگو میں کشمیر بھی زیر بحث آئے گا۔ ہند جیش محمد کو مورد الزام گردانتا ہے لیکن خود مودی صاحب جیش محمد کی مدد کررہے ہیں۔ جب ایسے حالات ہوں تو پھر یہ سیلاب رواں کہاں جاکر رکے گا۔ دنیا اس سوال کے جواب کی متلاشی ہے۔ کاش ہند کو بھی احساس ہوجائے کہ اسے امن کی طرف قدم اٹھانا ہی پڑے گا۔ جنگی جنون سے کام نہیں چلے گا۔
 

شیئر: