Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پلوامہ حملہ: انڈین میڈیا نے غلط معلومات پھیلائیں

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے  پلوامہ میں حملے پر ایک رپورٹ میں سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کا چپہ چپہ فوجی نگرانی میں ہے تو اتنا بڑا واقعہ کیسے پیش آیااور کیا ان حالات میں ایسی انٹیلی جنس ناکامی ممکن ہے؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کے ذرائع ابلاغ نے عوام تک درست خبر پہنچانے کے بجائے تعصب پر مبنی رپورٹنگ کی جس میں تضادات پائے گئے ہیں ۔ 
سچترا وجیان اور واسندھراسرنات نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ ان کے ادارے ’دی پولس پراجیکٹ‘ نے اس حملے کی انڈین میڈیا میں رپورٹنگ پر تحقیق کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر میڈیا ہاؤسز نے اپنی خبروں کے لیے نامعلوم سرکاری ذرائع کا سہارا لیا۔ رپورٹ کے مطابق ناقص ترین میڈیا نے اپنی خبروں کے ذریعے عوام میں کنفیوژن اور غلط معلومات پھیلائیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا ٹوڈے، انڈین ایکسپریس، فرسٹ پوسٹ، ممبئی مرر، اے این آئی، نیوز 18اور این ڈی ٹی وی نے معمول کے طور پر اپنی خبروں میں دی گئی معلومات کو ایسے سرکاری ذرائع،پولیس اہلکاروں، فرانزک ماہرین اور انٹیلی جنس افسران سے منسوب کیا جن کا کوئی نام پتہ نہیںبتایا گیا ۔ 
رپورٹ کے مطابق میڈیا کے کردار پر کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’ذرائع ابلاغ  نے خبر شائع کرنے سے قبل خود سے کوئی تفتیش کی اور نہ ہی انٹیلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھایا ۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ’ یہی وقت ہے کہ اس بات پر بحث کی جائے کہ کشمیر کے زمینی حقائق کو دیکھے بغیر انڈیا میں حکومت کتنے مؤثر طریقے سے صحافیوں کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر ر ہی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق کشمیر میںہونے والے ہر واقعہ کو الگ تھلگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ وہاں کے واقعات کی رپورٹنگ میں اس کی تاریخ کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتے وقت انڈیا کے وہاںروا رکھے گئے جابرانہ کردار کو بھی دیکھنا ہوگا ۔
رپورٹ کے مطابق انڈین ذرائع ابلاغ اپنے بیانیے میں جن کو سب سے زیادہ نظرانداز کرتا ہے وہ کشمیری شہری ہیں جن کو عموما دہشت گرد، پتھراؤ کرنے والے یا بطور انسانی شیلڈ دیکھا جاتا ہے جو جیپ کے آگے بندھے ہوتے ہیں  
رپورٹ کہتی ہے کہ’ عمومی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے رسمی بیانات‘ سے ہٹ کر دنیا کے سب سے بڑے فوجی اثر والے علاقے اور اس میں آئے روز کے تشدد پر رپورٹرز بات نہیں کرتے ۔ 
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’کشمیر کی وادی کی ہر گلی، سکول، مساجد اور گھروں کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔‘  علاقے کا ہر انچ زیرنگرانی ہے کیونکہ فوجی موجودگی اور نگرانی لازم و ملزوم ہیں ۔  ’ایسے حالات میں جب کارروائی کے لیے انٹیلی جنس ہر وقت دستیاب ہو، پلوامہ جیسا بڑا حملہ کیسے کامیابی سے ممکن بنایاگیا؟۔‘
رپورٹ کے مطابق ’کشمیر میں خفیہ معلومات اکھٹی کرنا ایک الگ صنعت ہے۔‘ اس کے لیے صرف انڈین خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالیسزونگ(را) اور انٹیلی جنس بیورو ہی کام نہیں کرتے بلکہ مقامی پولیس اور فوج کے بھی اپنے انٹیلی جنس یونٹس ہیں ۔ 
اسی طرح سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور بارڈر سکیورٹی فورس نے بھی خصوصی سیل تشکیل دیے ہیں جو خفیہ معلومات اکٹھی کرتے ہیں ۔  رپورٹ کے مطابق فوج کی ہر رجمنٹ نے بھی مقامی مخبر بھرتی کیے ہیں جو زیادہ تر ہتھیار ڈالنے والے سابق عسکریت پسندوں پر مشتمل ہیں جن کو فراہم کی گئی معلومات کے عوض معاوضہ ادا کیا جاتا ہے ۔ 
خیال رہے کہ چودہ فروری کو پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک قافلے پر خودکش حملے میں چالیس سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔ انڈیا اس حملے کا ذمہ دار پاکستانی کالعدم تنظیم جیش محمد پر عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کرتا ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد انڈیا کی مختلف ریاستوں میں کشمیری طلبہ پر حملے کیے گئے جبکہ کئی علاقوں میں کشمیرسے تعلق رکھنے والے شہریوں کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا گیا ۔ 
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے ذرائع ابلاغ ابھی پلوامہ حملے پر ہی خبریں شائع اور نشر کررہے تھے کہ  26فروری کی تاریخ آ پہنچی جب علی الصبح انڈین طیاروں نے پاکستان کے شہر بالاکوٹ کے قریب کارروائی کی اور جیش محمد کے مبینہ تربیتی کیمپ کو تباہ کرنے کا دعوی کیا ۔ پاکستان نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس کی سرحدوں اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے ۔
رپورٹ میں نتیجہ اخذکیا گیا ہے کہ اس واقعہ پر بھی زیادہ تر انڈین ذرائع ابلاغ نے حقائق کی تصدیق کرنے کی کوشش کی اور نہ مخالف بیانیہ کو شائع کرنا ضروری سمجھا ۔  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذرائع ابلاغ نے بغیر کوئی سوال کیے سرکاری مؤقف کو ہی درست مان کر پیش کیا یاپھر اپنی طرف سے اس حملے کی کامیابی کا ثبوت لے کر آئے  ۔
 
 
 
 

شیئر: