پاکستانی روپے نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں جولائی کے اختتام پر واضح بہتری دکھائی ہے۔
31 جولائی 2025 کو ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت خرید 284 روپے 32 پیسے اور فروخت 285 روپے 50 پیسے رہی، جب کہ انٹربینک مارکیٹ میں یہ قیمتیں 282 روپے 87 پیسے اور 283 روپے 7 پیسے ریکارڈ کی گئیں۔
رواں ہفتے ایک موقع پر ڈالر کی قیمت 281 روپے کی سطح پر بھی رپورٹ کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ایف آئی اے کی کرنسی سمگلروں کے خلاف کارروائی، پانچ افراد گرفتارNode ID: 892729
مالیاتی ماہرین، معاشی مبصرین اور حکومتی ذرائع روپے کی قدر میں اس بحالی کو ریاستی اداروں کی مشترکہ کوششوں اور منظم کارروائیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر کرنسی سمگلنگ، حوالہ نیٹ ورکس اور بلیک مارکیٹ کے خلاف کارروائیوں نے ڈالر کی طلب کو محدود کیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار راجہ کی ہدایت پر ملک بھر میں حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی کرنسی ایکسچینج نیٹ ورکس کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے کے تمام زونز بشمول بلوچستان، کراچی، لاہور، ملتان اور پشاور میں نمایاں کارروائیاں کی گئی ہیں، جن کے دوران درجنوں ملزموں کو گرفتار کر کے ان کے قبضے سے کروڑوں روپے مالیت کی ملکی و غیرملکی کرنسی، رسیدیں اور دیگر اہم شواہد برآمد کیے گئے ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق بلوچستان میں ایف آئی اے کے کمپوزٹ سرکل چمن نے غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث ایک اہم ملزم عبدالاحد کو گرفتار کیا ہے، جس کے قبضے سے تین لاکھ سعودی ریال اور دو ہزار 900 امریکی ڈالر برآمد ہوئے، جن کی مجموعی مالیت دو کروڑ 34 لاکھ روپے سے زائد بتائی گئی۔
ملزم سے غیرقانونی کرنسی کے تبادلے سے متعلق دستاویزی اور ڈیجیٹل شواہد بھی حاصل کیے گئے، تاہم وہ کرنسی کے ذرائع کے بارے میں حکام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا، اور اس سے تفتیش جاری ہے۔

ادھر ایف آئی اے لاہور زون نے بھی اہم کارروائیاں کرتے ہوئے بادامی باغ سے دو ملزموں جنید علی اور سیف الرحمان کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا جو ضلع باجوڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے قبضے سے دو لاکھ روپے کی نقدی، حوالہ ہنڈی کی رسیدیں اور دیگر ڈیجیٹل شواہد برآمد کیے گئے۔
کراچی میں بھی ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل نے شاہراہ فیصل سے ایک ملزم نوشاد عباس کو گرفتار کیا جو حوالہ ہنڈی اور غیر قانونی ڈالر کی خرید و فروخت میں ملوث پایا گیا۔
ملزم کے قبضے سے حوالہ ہنڈی کی رسیدیں اور موبائل فون برآمد کیے گئے۔ اسی زون میں بولٹن مارکیٹ سے شعیب نامی ملزم کو بھی گرفتار کیا گیا، جو حوالہ ہنڈی نیٹ ورک سے وابستہ تھا۔
ملتان زون کی کارروائیوں میں حوالہ ہنڈی، غیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ملزموں سے مجموعی طور پر 21 لاکھ روپے نقد، پچیس ہزار عراقی دینار، پانچ ہزار 500 سعودی ریال، اور 500 امریکی ڈالر برآمد کیے گئے۔
ایف آئی اے پشاور زون نے پشاور، نوشہرہ، مردان اور لوئر دیر کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہوئے نو ملزموں کو گرفتار کر لیا جن میں محمد حمزہ خان، محمد یٰسین، امداد اللہ، دانش جمیل، موصم، محمد ابرار، ذاکر علی، محمد علی اور حق نواز شامل ہیں۔
ان ملزموں سے مجموعی طور پر 34 لاکھ 60 ہزار روپے نقد اور غیرملکی کرنسی میں نو ہزار 300 سعودی ریال، 500 اماراتی درہم، 1250 قطری ریال اور 750 افغانی برآمد کیے گئے۔
یہ تمام ملزمان بغیر لائسنس کرنسی ایکسچینج چلا رہے تھے اور حوالہ ہنڈی میں ملوث تھے۔
یاد رہے کہ جولائی کے تیسرے ہفتے میں چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان کی قیادت میں منی چینجرز کے وفد نے اعلیٰ عسکری شخصیت سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے ملک میں دوبارہ ڈالر کی قیمت میں غیرمعمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور صورت حال کا فوری نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہوئے کرنسی سمگلنگ، بلیک مارکیٹ، اور ہنڈی حوالہ آپریٹرز کے خلاف فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ملک بوستان نے ملاقات کے دوران افغانستان اور ایران کے بارڈر کے راستے بڑی مقدار میں ڈالر اور دیگر غیرملکی کرنسی سمگل کیے جانے کی نشاندہی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سملنگ کی وجہ سے ملک میں ڈالر کی سپلائی کم ہو رہی ہے، اور اوپن مارکیٹ میں غیرقانونی خریدار زیادہ نرخ دے کر صارفین کو قانونی چینلز سے دور کر رہے ہیں۔‘
31 جولائی 2025 کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زر مبادلہ کے مجموعی ذخائر 25 جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے میں 19 ارب 607 ملین ڈالر ریکارڈ کیے گئے۔
ان ذخائر میں سٹیٹ بینک کی تحویل میں موجود ذخائر کی مقدار تقریباً 14 ارب 303.9 ملین ارب ڈالر ہے، جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود خالص ذخائر 5 ارب 303.1 ملین ڈالر رہے۔
تاہم رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مذکورہ ہفتے کے دوران بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی وجہ سے سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 153 ملین ڈالر کی کمی واقع ہوئی، جس کے بعد مرکزی بینک کے ذخائر موجودہ سطح پر پہنچے۔
اگرچہ ذخائر میں یہ کمی عارضی ہے، تاہم مجموعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر ایک مستحکم پوزیشن پر برقرار ہیں، جو معیشت کے لیے نسبتاً اعتماد افزا اشارہ تصور کیا جا رہا ہے۔
ملک بوستان کے مطابق کئی سمگلنگ نیٹ ورک عارضی طور پر انڈر گراؤنڈ ہو چکے ہیں اور مارکیٹ میں ڈالر کی مصنوعی مانگ کم ہونے لگی ہے۔ اس کے اثرات چند دنوں میں ہی نظر آنے لگے ہیں اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ 288.60 روپے سے کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔
