Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

#ملا_عمر

ڈچ صحافی کی جانب سے اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ملا عمر افغانستان میں امریکی بیس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر مقیم رہے البتہ امریکی ایجنسیاں ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہیں۔ اس انکشاف کے بعد ملا عمر کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے امریکہ کے الزامات کی قلعی کھل گئی ہے۔ ٹویٹر صارفین کا اس حوالے سے کیا کہنا تھا آئیے دیکھتے ہیں۔
ثنا فواد نے ٹویٹ کیاکہ چراغ تلے اندھیرا ۔” امریکی فوج، ملاعمر کو ان کے اڈے کے قریب کئی برس تک رہائش ہونے کے باوجود تلاش کرنے میں ناکام رہی۔ ملاعمر کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر رکھی گئی تھی اور وہ افغانستان میں امریکی اڈے سے چند فرلانگ دور رہائش پذیر تھے“۔ برطانوی اخبار گارجین کا انکشاف۔
سادات یونس نے لکھا کہ یہ تو ثابت ہو گیا کہ ملا عمر کبھی پاکستان نہیں آیا تھا۔اب اس بات کی تحقیق کرنی چاہیے کہ کون ملا عمر بن کر انکے گھر آتا رہا جو یہ اسکی موجودگی کا شور مچاتے رہے۔
طارق ملک نے کہاکہ ہالینڈ کی خاتون صحافی نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ ملا عمر افغانستان میں امریکی فوجی اڈے سے صرف2 کلومیٹر دور کی عرصہ تک پناہ لیتا رہا امریکی سمجھتے رہے وہ پاکستان میں، خاتون صحافی نے بیچ چوراہے پر ہنڈیا پھوڑ دی۔ دنیا پاکستان الزام لگاتی ہے لیکن بعد میں منہ کی کھانا پڑتی ہے۔
شفقت علی قریشی نے سوال کیاکہ سابق طالبان سربراہ ملا عمر افغانستان میں امریکی ملٹری 20 کے قریب اپنے ڈرائیور کے ساتھ رہتے رہے اور اپنی زندگی کے آخری ایام وہیں گزارے،وال اسٹریٹ جنرل 
انیلا خان خالد نے لکھا کہ امریکہ وثوق سے اس بات کو کہتا،مانتا آیا ہے کہ ملا عمر پاکستان بھاگ گیا تھا اور وہیں فوت ہوگیا تھا۔ نئی ریسرچ اس بات کوغلط ثابت کر گئی ہے۔ جس وجہ سے امریکہ کے پاکستان پر کئے گئے باقی دعوﺅں اور الزامات پر آج ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنتا ہے!
٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر:

متعلقہ خبریں