Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسیقار نثاربزمی کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس

 معروف موسیقار نثار بزمی کو مداحوں سے بچھڑے 12 برس بیت گئے۔ ان کی ترتیب دی ہوئی لازوال دھنیں آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔نثار بزمی 1924ءمیں ممبئی کے نزدیک خاندیش کے قصبے میں پیدا ہوئے۔ نثار بزمی شروع سے ہی مشہورہندوستانی موسیقار امان علی خان سے متاثر تھے تاہم انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز ریڈیو ڈرامے “نادر شاہ درانی” کی موسیقی ترتیب دینے سے کیا جبکہ بطور موسیقار ان کی پہلی فلم ”جمنا پار“ تھی جو 1946 میں ریلیز ہوئی جس کے بعد ان کی موسیقی ہر فلمساز کی ضرورت بن گئی۔ انہوں نے تقریباً 40 فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ممبئی میں وہ اس قدر عروج پر تھے کہ لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقار ان کی معاونت میں کام کر چکے تھے لیکن پاکستان فلم انڈسٹری کے معمار فضل احمد فضلی کے بلاوے پر انہوں نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کرلی۔ پاکستان میں قدم جمانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ یہاں کے فلمی فلک پر بھی اس وقت موسیقی کے کئی آفتاب اور ماہتاب روشن تھے تو اس وقت پاکستان کی فلمی موسیقی میں خورشید انور اور رشید عطرے جیسے موسیقار چھائے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بابا چشتی، فیروز نظامی، روبن گھوش، سہیل رانا اور حسن لطیف بھی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔ ان کی بطور موسیقار پاکستان میں پہلی فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ تھی جس میں ان کے گیت” ایسا بھی ہوتا ہے“ پر احمد رشدی اور میڈم نور جہاں نے اپنی مدھر آوازوں کے جادو جگائے جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔ ’صاعقہ‘،’انجمن‘، ’میری زندگی ہے نغمہ‘، ’خاک اور خون‘ اور ’ہم ایک ہیں‘ جیسی فلموں کی موسیقی مرتب کی۔1966 میں انہوں نے ”لاکھوں میں ایک“ کی موسیقی دی کی تو پاکستان کی فلمی دنیا میں موسیقی سے تعلق رکھنے والے ہر شخص پر یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ ممبئی کے یہ موسیقار محض تفریحاً یہاں نہیں آئے بلکہ ایک واضح مقصد کے ساتھ یہاں مستقل قیام کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ نثار بزمی کو ان کی فنی خدمات کے باعث پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔نثاربزمی کو نیم کلاسیکی دھنوں سے لے کر فوک اور پاپ کمپوزیشن تک ہر طرح کی بندشوں میں کمال حاصل تھا ۔اسی لئے محمد رفیع، احمد رشدی، مہدی حسن اور نور جہاں جیسے منجھے ہوئے گلوکاروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے رونا لیلیٰ اور اخلاق احمد جیسی آوازوں کو بھی نکھرنے اور سنورنے کا موقع دیا۔ یہ نامورموسیقار 22 مارچ 2007ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے ۔
 

شیئر: