Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرڈر تو کر لینے دوبھائی

رائے شاہنواز

 

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت17 اپریل تک منظوری کر لی ۔نیب سے ان کی گرفتاری سے متعلق جواب طلب کر لیا ۔ لاہور ہائی کورٹ میں مقدمہ کی سماعت ٹھیک12 بجے شروع ہونا تھی لیکن11بجے ہی جسٹس ملک شہزاد احمد کی عدالت وکلا سے بھری ہوئی تھی۔زیادہ تر تعداد مسلم لیگ ن کے وکلاکی تھی۔ ساڑھے گیارہ بجے جج صاحب اٹھ گئے کیوں کہ درخواست ضمانت کی سماعت 2رکنی بنچ نے کرنا تھی۔
کمرہ عدالت کا ائیر کنڈیشنر سسٹم جواب دے گیا۔کمرہ عدالت کے باہر لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اسی کے ساتھ ہائیکورٹ کے چاروں طرف پولیس خاص طور پر اینٹی رائٹس فورس کے جوانوں کی غیر معمولی تعداد موجود تھی۔ کمرہ عدالت چونکہ پہلی منزل پر تھی اس لئے پولیس کے لئے رش کو کنٹرول کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
مقدمے کی سماعت
ٹھیک12بجے جسٹس ملک شہزاد احمد اور جسٹس مرزا وقاص روف چیمبر سے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ابھی تک حمزہ شہباز بھی نہیں پہنچے تھے۔ ججز 10 منٹ تک انتظار کرتے رہے۔ اسی دوران کمرہ عدالت میں لوگوں کو چپ کروانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ 
جسٹس شہزاد احمد کے وکیل نے حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب تکلیف دہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ صورت حال کے ان لئے بھی غیر متوقع اور عدالت سے معذرت کی اور بتایا کہ ان کے موکل باہر پہنچ چکے ہیں۔قریب سوا بارہ بجے حمزہ شہباز کمرہ عدالت میں داخل ہوئے تو سماعت کا آغاز ہوا۔ جسٹس ملک شہزاد نے نیب کے وکیل سے سوال کیا کہ بتائیں کتنے مقدمات میں حمزہ شہباز کی گرفتاری انہیں درکار ہے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے بتایا کہ آمد ن سے زائد اثاثوں ، صاف پانی اور رمضان شوگر ملز کے مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ اس کے علاوہ کوئی مقدمہ ہے یا نہیں ؟۔ بتائیں گرفتاری کس میں درکار ہے۔ نیب کے وکیل نے بتایا کہ یہ حتمی فہرست نہیں ہے تاہم گرفتاری ابھی آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق درکار ہے۔ حمزہ شہباز کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اپنے دلائل شروع کئے توانہوں نے عدالت کو بتایا کہ نومبر د2018 کو ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
نیب نے جب عدالت کو بتایا کہ حمزہ شہباز تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں تو عدالت نے حکم صادر کیا تھا کہ اگر کبھی حمزہ شہباز کی گرفتاری درکار ہو تو10 دن پہلے انہیں آگاہ کیا جائے۔ نیب اب اس حکم کی عدولی کر رہا ہے۔ نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کا واضح حکم آچکا ہے کہ کسی ملزم کو بتائے بغیر گرفتارکیا جاسکتا ہے۔ جس پر جسٹس ملک شہزاد نے نیب کے وکیل سے پوچھا کہ کیا حمزہ شہباز سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وہ سپریم کورٹ میں اپیل کے لئے گئے ہیں ؟ تو ان کا جواب تھا کہ جی ہاں جج صاحب نے دوبارہ پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ آپ کی اپیل پر کوئی فیصلہ سنا چکی ہے تو نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ نہیں ابھی درخواست زیر التوا ہے۔ جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ اب جو درخواست ان کے پاس آئی ہے وہ نئی عبوری ضمانت کی درخواست ہے کیونکہ اب نیب کو ان کی گرفتاری درکار ہے۔ اس کے قابل سماعت ہونے پر آپ دلائل دیں۔ نیب کے وکیل نے بتایا کہ حمزہ شہباز کی 3 ارب روپے کی ایسی ٹرانزیکشن کے ثبوت ان کے پاس آئے ہیں جو غیر قانونی ہے۔ عدالت نے دوبارہ کہا کہ مقدمے کے میرٹ پر جب بحث ہو گی یہ اس وقت کے دلائل ہیں۔ ابھی درخواست پہلی سطح پر ہے۔ ابھی تو ہم صرف نوٹسز کی بات کرہے ہیں۔ جسٹس ملک شہزاد نے آرڈر لکھوانا شروع کیا تو نیب کے وکیل نے اچانک استدعا کر دی کہ تاریخ چھوٹی رکھیئے گا۔ جس پر جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ ابھی آرڈر تو لکھوالینے دو بھائی۔ اس بات پر کمرہ عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔
  عدالت نے اپنے حکم میں حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت17 اپریل تک منظور کرتے ہوئے نیب سے جواب تحریری جواب طلب کر لیا ۔ حمزہ شہباز کو ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔ ان کے وکلا کووارننگ دی کہ آئندہ سماعت پر عدالت ماحول ایسا رہا تو پاسز جاری کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔
حمزہ شہباز کا مقدمہ ہے کیا؟
پنجاب کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز پر نیب3 مقدمات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ایک مقدمہ آمد ن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے۔ یہی مقدمہ دلچسپی کا حامل ہے۔ نیب نے اسی مقدمے کی انکوائری کے دوران کئی مرتبہ حمزہ شہبار کو نوٹس کئے اور انہوں نے پیش ہو کر انکوائری کا سامنا کیا۔
اسی دوران کے والد شہباز شریف کی گرفتاری عمل میں آئی تو انہوں نے نومبر2018میں لاہور ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت کرا لی۔ عبوری ضمانت کی سماعتوں کے دوران نیب نے جب عدالت کو بتایا کہ انہیں حمزہ کی فوری گرفتاری درکار نہیں تو عدالت نے مقدمہ نمٹا دیا اور ہدایت کی کہ اگر کسی موقع پر ان کی گرفتاری ضروری ہو تو انہیں10 روز قبل آگاہ کیا جائے۔5اپریل 2019 کو نیب کی ٹیم میں اچانک ماڈل ٹاون میں ان کی رہائش پر چھاپہ مارا اور انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔
نیب کے اعلامیے کے مطابق حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے ایسے ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں کہ ان کی گرفتاری ناگزیر ہے۔ 6 اپریل کو ان کی گرفتاری کے لئے ایک اور چھاپہ مارا گیا لیکن لاہورہائی کورٹ میں ان کی پروٹیکشن بیل منظور ہونے کے بعد گرفتاری ٹل گئی۔ اب لاہور ہائی کورٹ نے ان کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے نیب سے وہ ناقابل تردید ثبوت اور وضاحت طلب کر لی جس میں ان کی گرفتاری ناگزیر ہے۔

شیئر: