Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'اب کوئی گلوکارہ اقبال بانو نہیں بن سکتی'

***شائستہ جلیل***
دشت تنہائی میں اے جان جہاں لرزہ ہے
الفت کی نئی منزل کو چلا ہے ڈال کے باہیں باہوں میں 
دِل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ۔۔۔۔۔جیسی نامور غزلیں ہوں
تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے، 
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے فلمی گیت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر نامور شاعر فیض احمد فیض کا کلام۔۔۔۔ہم دیکھیں گے۔۔۔
معروف کلاسیکل غزل گائیک کہا جائے یا بہترین فلمی گلوکارہ  ہر گیت اور غزل میں یکساں مقبول  شخصیت  ہیں پاکستان کی کلاسیکل موسیقی کی دنیا کا منفرد اور انتہائی معتبر نام' اقبال بانو'۔
نامور گلوکارہ اقبال بانو نے دہلی شہر میں آنکھ کھولی ریڈیو پاکستان سے کلاسیکل گائیکی کا آغاز کیا 1950 میں پہلی بار فلمی گیت " تولاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے' پیش کرکے ایک بہترین گلوکارہ کےطور پر ابھریں۔اقبال بانو  کا شمار ملک کے مایہ ناز کلاسیکل گلوکاروں میں ہوتاہے بہترین آواز اور منفرد انداز گلوکاری غزل گائیکی میں اقبال بانو کا کوئی ثانی نہیں۔ غزل ٹھمری داد اور خیال اقبال بانو کا خاصہ تھے۔
کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ ' اردو نیوز 'سے خصوصی گفتگو میں اقبال بانو کی خدمات کوقابل تحسین قراردیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "غزل گائیکی میں اقبال بانو، مہدی حسن اور فریدہ خانم پاکستان کے یہ تین نام ایسے ہیں جنھوں نے صرف گائیکی میں کمال حاصل نہیں کیا بلکہ اردوشاعری اور اردوغزل کی مقبولیت میں ان تینوں کا ہاتھ ہے۔
انھوں نے کہا مرزا اسد اللہ خان غالب ایک مشکل شاعر ہیں جس طرح اقبال بانونے غالب اور فیض احمد فیض کی شاعری کو گایاہے میں سمجھتا ہوں یہ ان کا ہی حصہ تھا۔"۔ "خواتین کی آواز میں پاکستان میں صرف دو نام ہیں جو غزل گائیکی میں مشہور ہیں ان میں ایک فریدہ خانم اور دوسرا نام اقبال بانو کا ہے۔فریدہ خانم نے  ضعیف العمری کےباعث گیت گانے چھوڑدئے ہیں ۔
احمد شاہ نے کہا ' اقبال بانو اب دوبارہ نہیں بن سکتی ،کیونکہ انھوں نے ساری عمر ریاض پر لگادی۔اب نوجوان نسل شارٹ کٹ پر یقین رکھتی ہے جو ویڈیو پر اسی وقت گانا بناتے ہیں جو ہنگم اور بےسرا   اب یہ سستی شہرت کا زمانہ ہے۔فن کے حساب دیکھاجائے تو یہ خراب زمانہ ہے۔اب لوگوں کےپاس وقت نہیں کہ صبر و تحمل سے اپنے فن کو نکھار سکیں،
احمد شاہ نے اردو نیوز سے گفتگو میں مزید کہا ' اقبال بانو اتنی پختگی سے راگوں کا استعمال کرتی تھیں انھوں نے گائیکی میں اپنی پوری عمر لگادی۔اقبال بانو اردو غزل گائیکی کا بہت بڑا نام ہیں جب تک اردو کلام زندہ ہے اقبال بانو کا نام زندہ رہےگا۔
پاکستان کے معروف صحافی اور تجزیہ کار نذیر لغاری  'اردو نیوز' سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ " اردو غزل کے گانےوالوں میں اقبال بانو کا بہت  معتبر نام ہے جب ان کا نام سامنے آتاہے تو ان کی گائی ہوئی غزلیں، ان کی غزلوں کے مکھڑے ، ان کی غزلوں کی استھائیاں اورانکی غزلوں کے تمام رنگ سامنے آجاتے ہیں اقبال بانو نے جو نظمیں اور غزلیں گائی ہیں وہ کمال ہیں۔ نذیر لغاری نے مزید کہا " اقبال بانو واقعی ایسی فنکارہ تھیں جنھیں مدتوں یاد رکھاجائےگ،ان کے بقول جب تک اردو غزل ساتھ چلےگی ان کی آواز بھی ساتھ رہےگی۔ عظیم گلوکارہ  اقبال بانو کی غزلیں بہت سنی جاتیں ہیں اور سنی جاتی رہیں گی"۔
اردو غزلیں سننے کا ذوق رکھنےوالے کراچی کے شہری محمد زاہد موجودہ دور میں اردوغزل اور اقبال بانو کی غزلوں پراردو نیوز' سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ غزل گائیکی فنون لطیفہ میں تھی مگر اب نہیں ہے، ان کے بقول موجودہ دور اب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہاہے غزل غور سے سننے کی چیز ہے ان اشعار کو شخصیت کے اندر ڈھالنا پڑتاہے۔ انھوں نے کہا " اب اردو غزل کا اصل ذوق ختم ہورہاہے اس دور کو واپس لینے کیلئےہمارے  نامور شاعروں غالب اور اقبال کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔محمد زاہد نے تشویش ظاہر کی ہے  اردو زبان کی تہذیب ختم ہوتی جارہی ہے 90 فیصد زبان دیکھیں تو اسمیں انگریزی اور بھارتی مواد دیکھتے دیکھتے ہندی کے الفاظوں کا استعمال زیادہ ہورہاہے۔اقبال بانوکی گائی ہوئی غزلیں یاد کرکے کہتے ہیں کہ " وہ ایک بہترین غزل گلوکارہ تھیں ان کی غزل ''ہم بھی دیکھیں گے' ایک انقلابی غزل تھی"۔
اردو غزل کو  اپنی آواز اورمنفرد انداز گلوکاری سے نئی  پہچان دلانےوالی  اقبال بانوکا نام اردو غزل گائیکی میں اعلی مقام رکھتاہے  موسیقی کی دنیا کی ایک  اقبال بانو نا صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کی معروف غزل گلوکارہ مانی جاتی ہیں انھیں ناصرف اردو غزلوں پر عبور حاصل تھا بلکہ انھوں نے کئی فارسی زبان کی غزلیں بھی پیش کیں جو افغانستان میں بےحد مقبول ہوئیں  ۔
دہلی کے استاد چاند خان کی شاگردہ نے اپنی محنت اور لگن سے اردو غزل میں نام پیدا کیا
ضیا دور میں 50 ہزار کے مجمعے میں اقبال بانو نے غزل ہم دیکھیں گے پیش کرکے انقلاب برپا کردیا
21اقبال بانو کو 1974 میں پاکستان کی حکومت کی جانب سے" تمغہ امتیاز' پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ "سے بھی نوازا گیا۔ اپریل 2009 کو دوران علالت لاہور کے ایک مقامی اسپتال  میں دنیا سے چل بسیں ،ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے 10 برسوں بعد بھی ان کے گیتوں اور غزلوں کو وہی بےپناہ شہرت حاصل ہے  ۔

شیئر: