Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'کوئی تیسرا ملک پاک ایران تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو سکتا'

**عابد ملک**
پاکستان اور ایران نے سرحدی علاقے میں سکیورٹی اقدامات کو بہتر بنانے کے لیے مشترکہ ریپڈرسپانس فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ اعلان پیر کو  تہران میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ایرانی صدر حسن روحانی نے مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ 
صدر روحانی نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی اقدامات بہتر بنانے پر اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'کوئی تیسرا ملک پاک ایران تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔'
ایران کے صدر نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان کو دس گنا زیادہ بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ دونوں ممالک دہشت گردی سے متاثر ہیں، اسی لیے وہ ایران کے دورے پر آئے ہیں۔' پاکستان اپنے ملک سے تمام عسکریت پسند گروپوں کا خاتمہ کر رہا ہے۔'
عمران خان نے کہا کہ 'بلوچستان میں دہشت گردوں نے ہمارے 14 جوانوں کو قتل کیاجبکہ مجموعی طور پر 70 ہزار سے زائد افراد دہشت گردی کی جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔'
مشترکہ نیوز کانفرنس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ایران کے صدر حسن روحانی نے ون آن ون ملاقات اور پھر وفود کی سطح پر مذاکرات کیے۔ دونوں ملکوں کے درمیان صحت اور میڈیکل تعلیم کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے تعاون کی یادداشت پر دستخط بھی ہوئے۔
اس سے قبل پاکستانی وزیراعظم عمران خان اپنے وفد کے ہمراہ پہلے دورہ ایران پر اتوار کو مشہد پہنچے تھے جہاں گورنر مشہد نے ان کا استقبال کیا۔وزیراعظم عمران خان کواس دورے کی دعوت صدر روحانی نے دی ہے۔ مشہد کے بعد وزیراعظم عمران خان ایران کے دارالحکومت تہران پہنچے تھے۔
پاکستان ایران تعلقات: 'دیر آید درست آید '
پاکستان اور ایران کے درمیان حالیہ برسوں میں تعلقات میں زیادہ گرمجوشی نہیں رہی بلکہ سرحدی امور پر دونوں ممالک میں تنازع رہا ہے۔
18 اپریل کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے 14 اہلکاروں کو بسوں سے اتار کر مارا گیا۔ پاکستان نے اس واقعہ کا الزام ایران میں موجود ایک مسلحگروپ پر عائد کیا اور سلسلے میں دفتر خارجہ نے ایرانی سفارتخانے سے سخت احتجاج کرتے ہوئے مراسلہ بھیجا تھا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سنیچر کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھاکہ ان کا ملک توقع رکھتا ہے کہ ایران اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد  عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گا۔
ایران میں رواں برس 13 فروری کو کار دھماکے میں 27 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ اس حملے کے لئے القاعدہ کے دہشت گرد گروپوں نے پاکستان کی سرزمین استعمال کی۔ ایران کے صدر حسن روحانی وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں۔
اس حوالے سے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران کو مثبت اور دیر آید درست آید کے مترادف قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوںکے درمیان مشترکہ ریپڈ رسپانس فورس کے قیام کا فیصلہ اچھا اقدام ہے۔ 
شمشاد احمد خان نے کہا کہ وزیراعظم کے دورے سے قبل اورماڑہ کا واقعہ کسی اور ملک کی سازش ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن نے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ایران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ایران میں غلط فہمیاں اور دوریاں اتنی آسانی سے کم نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کے چین کے سوا کسی ہمسائے سے اچھے تعلقات نہیں ہیں۔
شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ سابق حکمرانوں نے سعودی عرب سے یمن کی جنگ میں ساتھ دینے کا غیرذمہ دارانہ وعدہ کیا جس سے ایران کو خدشات لاحق ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم ایسی جنگیں لڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری موجود ہے اور اس کا اظہار وزیراعظم کے ایران میں استقبال سے بھی ہو تا ہے۔  'ایران کی ناراضی کی ایک وجہ ہمارا امریکا سے قریب ہونا بھی ہے، ہم امریکا کو ناراض نہیں کر سکتے، ہم ہمیشہ امریکا کے دوست اور کچھ عرصہ پہلے تک پارٹنر رہے ہیں ۔'

شیئر: