Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مصر میں جیون ساتھی کے انتخاب اورطلاق کا ’ ڈرامہ‘

قاہرہ یونیورسٹی میں جیون ساتھی کے انتخاب پر ’ماوادا‘ نامی سٹیج ڈرامہ

’’یہ گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے، گندگی کا ڈھیر لگ رہا ہے،شام کا کھانا کیوں تیار نہیں؟‘‘

’’میں کام پر جاتی ہوں، بچوں کو سنبھالتی ہوں، کھانا تیار ہونے میں ابھی وقت ہے۔‘‘
یہ ڈائیلاگز کسی فلم یا ٹی وی ڈرامے کے نہیں بلکہ مصر کی یونیورسٹی میں پرفارم کیے جانے والے ڈرامے کے ہیں۔
قاہرہ یونیورسٹی میں جیون ساتھی کے انتخاب اور بہترین ازدواجی زندگی  کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کے لیے ’ماوادا‘ نامی ڈرامہ پیش کیاجارہا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے ’روئٹرز‘ کے مطابق ’ ماوادا‘ دراصل سرکاری منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد مصر میں طلاق کی شرح کو کم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران مصر میں طلاق کے رجحان میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سال 2017 کے دوران طلاق کی شرح میں 3.2 فیصد اضافہ ہوا۔ اعدادوشمار کے مطابق مصر میں 2017 کے دوران ایک لاکھ 98 ہزار طلاقیں ہوئیں۔
’ماوادا‘ نامی یہ ڈرامہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن حکومت 2020 کے بعد سے سالانہ آٹھ لاکھ نوجوانوں کو ازدواجی زندگی کے حوالے سے باشعور کرنا چاہتی ہے۔
یونیورسٹیوں کے طلبہ کے لیے ڈگری مکمل کرنے سے قبل اس کی کلاسسز لینا لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ ’ماوادا‘ کا پیغام یوٹیوب ویڈیوز، ریڈیو پروگرام کے ذریعے دیا جائے گا۔

ڈرامہ دیکھنے کے بعد طلبہ اور اساتذہ نے گھریلو معاملات چلانے کے لیے ملازمت کرنے والی بیوی کے کردار کو سراہا، ان کا کہنا تھا کہ شوہر کو بھی گھریلو کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر صالح محمد نے کہا کہ ’یہ خاتون کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ سارے کام خود کرے، شوہر کو بھی مدد کرنی چاہیے۔‘
لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بیوی کو خاوند کی گھر واپسی کے وقت گھرکی صفائی میں مگن ہونے کے بجائے خوبصورت دکھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
23 سالہ جولیا نے یہ ڈرامہ اپنے منگیتر کے ساتھ دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ مصر کے معاشی حالات ان کی شادی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، انہیں بھی کام کرنا پڑے گا اور ممکن ہے کہ ان کے درمیان وہی مکالمہ ہو جیسا اس ڈرامے کے میاں بیوی کے درمیان ہوا۔
ڈرامے میں شوہر کا کردار ادا کرنے والے 26 سالہ عاداب الحسینی کو بھی کچھ ایسے ہی خدشات ہیں، وہ کہتے ہیں وہ مستقبل قریب میں شادی کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن مالی مشکلات ان کی ازدواجی زندگی کے لیے مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔

مصر کی وزارت برائے سماجی یکجہتی میں ماوادا کے مینجر عمر عثمان کہتے ہیں کہ ’اگر ہم طلاق کے مسئلے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں تو اس حوالے سے ہمیں نوجوانوں کو شادی سے پہلے تعلیم دینا ہوگی۔‘
یاد رہے کہ گذشتہ برس جولائی میں منعقد ہونے والی یوتھ کانفرنس میں مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا تھا کہ طلاق کا مطلب ہے کہ لاکھوں مصری بچے اپنے والد یا والدہ سے علٰیحدہ رہیں۔ صدر السیسی کہتے ہیں وہ مصر میں اس روایت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حکام کے مطابق ماوادا کا منصوبہ بھی صدر السیسی کے خدشات کے باعث شروع کیا گیا ہے۔ یہ السیسی کی سماجی تبدیلی کی کوششوں کا حصہ ہے۔  
نیو امریکہ نامی ایک امریکی سماجی تنظیم کے ریسرچ فیلو بارک برفی کہتے ہیں کہ ’السیسی کی سوچ پدرشاہی ہے اور وہ مصری لوگوں کے ساتھ ایسے بات کرتے ہیں جیسے ان کے والد ہوں۔‘

شیئر: