Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب: منفرد اقامے سے پاکستانیوں کو کیا فائدہ ؟

اقتصادی ماہرین کے مطابق اقامہ ممیزہ سے سعودی عرب کو 10ارب ریال کی سالانہ آمدنی ہوگی۔
سعودی حکومت نے ملکی معیشت کا تیل پر انحصار کم کرنے اوراس کو زیادہ متنوع بنانے کی پالیسی کے تحت حالیہ دنوں میں غیر ملکیوں کے لیے’اقامہ ممیزہ‘ یعنی منفرد اقامہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کی تمام تر تفصیلات بشمول حقوق، واجبات، مراعات اور دیگر کا اعلان 90روز کے بعد ہوگا جب ’منفرد اقامہ مرکز‘ کی طرف سے باقاعدہ طور پر اس کی تفصیلات جاری ہوں گی، تاہم سعودی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں سے دستیاب معلومات سے منفرد اقامہ کے بنیادی خط وخال واضح ہوگئے ہیں۔

پاکستانی کیا فائدہ اٹھا سکیں گے؟

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ منفرد اقامہ جاری کرنے کی خبر سن کر پاکستانیوں سمیت عوام الناس میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن اس منفرد اقامہ کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ان خاص افراد کے لیے ہے جو مالی طور پر مضبوط ہیں اور مملکت میں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا سرمایہ کسی مفید کام میں لگانے کے خواہش مند ہیں۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی میڈیا میں غیر سرکاری ذرائع سے خبر شائع ہوئی ہے کہ اقامہ ممیزہ کی سالانہ فیس ایک لاکھ ریال جبکہ دائمی اقامہ ممیزہ کی فیس آٹھ لاکھ ریال ہے۔


ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ 30لاکھ افراداقامہ ممیزہ حاصل کریں گے.

اس کا مطلب ہے سعودی عرب میں مقیم 25 لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف پانچ سے دس فیصد کو ہی اس سے فائدہ ہوگا۔ یہ پانچ سے دس فیصد وہ لوگ ہیں جو سرمایہ کاری بورڈ میں پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہیں یا پھر وہ پاکستانی تاجر اور سرمایہ کار ہیں جو غیر قانونی طور پر سعودی شہریوں کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں اور ہر وقت انہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت وہ اپنے سرمائے سے محروم ہوسکتے ہیں۔

اقامہ ممیزہ اور سرمایہ کاری کا اقامہ رکھنے میں کیا فرق ہے؟

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہوسکا کہ اقامہ ممیزہ اور سرمایہ کاری کا اقامہ رکھنے میں کیا فرق ہے۔ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مندوں کو سرمایہ کاری کا اقامہ جاری ہوتا ہے۔ جس کی مدد سے وہ اپنے نام سے کاروبار کرسکتے ہیں، ملازمین رکھ سکتے ہیں اور انہیں وہ بیشتر سہولتیں حاصل ہیں جن کا ذکر اقامہ ممیزہ کے ضمن میں کیا گیا ہے۔
اگر ایسا ہے تو ان دونوں میں کیا فرق ہے، یہ بات ابھی تک واضح نہیں۔
اقامہ ممیزہ رکھنے والوں کوایک اور سہولت یہ بھی ہوگی کہ وہ اہل خانہ کی فیسوں سے مستثنی ہوں گے۔ ان سے مرافقین اور تابعین کی فیس نہیں لی جائے گی۔ وہ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور سرحدی علاقوں کے علاوہ باقی شہروں میں جائیداد کی خرید وفروخت کرنے میں آزاد ہوں گے تاہم مقدس شہروں میں انہیں یہ سہولت ہوگی کہ وہ 99 سال کے لیے جائیداد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔یعنی مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں وہ غیر منقولہ جائیداد خرید کر ان میں قیام کر سکتے ہیں اور سرمایہ کاری بھی مگر یہ جائیداد ان کی ملکیت میں 99سال کے لیے ہوگی۔

کیا منفرد اقامہ امریکی گرین کارڈ جیسا ہے؟

اقامہ ممیزہ کو امریکی گرین کارڈ سے تشبیہ دی جارہی ہے یا اسے پاکستان اوریجن کارڈ کی طرح کہا جاسکتا ہے جس کا حامل مکمل نہیں تو آدھا شہری بن جاتا ہے تاہم منفرد اقامہ رکھنے والے غیر ملکیوں کو سعودی شہریت نہیں دی جائے گی نہ ہی گرین کارڈ کی طرح منفرد اقامہ رکھنا انہیں شہریت کا اہل بناسکتا ہے۔
قانون کے مطابق منفرد اقامہ منسوخ کرنے کے اسباب کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن میں ایسے کسی جرم میں ملوث ہونا جس پر60دن سے زیادہ قید کی سزا یا ایک لاکھ ریال جرمانہ کیا جائے۔
کسی بھی عدالت سے منفرد اقامہ رکھنے والے کو مملکت سے بے دخل کرنے کی سزا سنائی جائے یا پھر ثابت ہوجائے کہ منفرد اقامہ حاصل کرنے کے لیے غیرملکی نے غلط معلومات فراہم کی تھیں۔


سعودی عرب میں مقیم 25 لاکھ پاکستانیوں میں سے صرف پانچ سے دس فیصد کو ہی اس سے فائدہ ہوگا.

لندن سے شائع ہونے والے اخبار الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ 30لاکھ افراداقامہ ممیزہ حاصل کریں گے۔ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پہلے سے ہی مملکت میں مقیم ہیں اور وہ بھی جو مملکت میں سرمایہ کاری کرنے آئیں گے۔

سعودی عرب کو اقتصادی فائدہ کیا ہوگا؟

اقتصادی ماہرین کے مطابق اقامہ ممیزہ سے سعودی عرب کو 10ارب ریال کی سالانہ آمدنی ہوگی۔
اس سے ایک طرف سعودیوں کے نام پر غیر ملکیوں کے کاروبار کا انسداد ہوگا تو دوسری طرف اس تجارتی سرگرمی کا خاتمہ ہوگا جس سے ملکی معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اقامہ ممیزہ کا قانون ہر اس شخص کو اپنی جانب متوجہ کرے گا جس کے پاس سرمایہ ہے اور وہ ا سے محفوظ اور قانونی طریقہ سے کاروبار میں لگانا چاہتا ہے۔

شیئر: