Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ کی باکسر جسے رِنگ میں لڑکا بننا پڑتا ہے

ملائکہ کو کئی دوسری مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ روپ بدل کر لڑکا بھی بننا پڑا
'میں بڑے بالوں کے ساتھ ایک لڑکی کے روپ میں لڑکوں کے ساتھ باکسنگ سیکھتی تھی تو کچھ لوگ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ کلب میں لڑکے بھی آسانی محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے مجھے اپنا لائف اسٹائل بدلنا پڑا۔ اب میں نے لڑکوں کی طرح بال کٹوا لیے ہیں اس وجہ سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ لڑکی ہے یا لڑکا اور مجھے ٹریننگ میں بھی آسانی ہوتی ہے.'
یہ کہنا ہے کوئٹہ کی 14 سالہ باکسر ملائکہ زاہد کا جو گذشتہ چار برس سے باکسنگ کے میدان میں ہیں اور منی اولمپکس سمیت قومی سطح کے کئی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرکے نام کما چکی ہیں۔
ریلوے پولیس کے ملازم محمد زاہد کی کم عمر بیٹی ملائکہ ریلوے ہاکی گراﺅنڈ سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کلب میں اپنے کوچ غلام نبی سے باکسنگ کی تربیت حاصل کرتی ہیں ۔ چار سال قبل دس سال کی عمر میں ملائکہ نے باکسنگ کی تربیت حاصل کرنا شروع کی تو یہ فیصلہ اتنا آسان نہ تھا۔ انہیں جہاں کئی دوسری مشکلات پیش آئیں، وہیں روپ بدل کر لڑکا بھی بننا پڑا۔

ملائکہ زاہد منی اولمپلکس سمیت قومی سطح کے کئی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرکے نام کما چکی ہیں
ملائکہ زاہد منی اولمپلکس سمیت قومی سطح کے کئی مقابلوں میں کامیابی حاصل کرکے نام کما چکی ہیں

’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے ملائکہ زاہد نے بتایا کہ انہیں بچپن میں باکسنگ کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد اس کا شوق ہوا۔ 'میرے شوق کو دیکھتے ہوئے والد نے مجھے ایک کلب میں داخل کروا دیا ۔ لڑکیوں کے لیے کوئی علٰیحدہ کلب یا اکیڈمی نہ ہونے کی وجہ سے مجھے لڑکوں کے ساتھ ہی ٹریننگ کرنا پڑتی ہے۔ شروع میں میرے بال لڑکیوں کی طرح تھے اس کی وجہ سے لوگ باتیں بھی کرتے تھے تو تھوڑاعجیب سا لگتا تھا پھر میں نے بال کٹوا دیئے۔'
’میں نے اپنا لائف اسٹائل اس لئے تبدیل کیا کہ اگر میں لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کرتی ہوں تو ان کو ایسا محسوس نہ ہو کہ میں لڑکی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ میں ان کے برابر رہوں تاکہ کوئی میرے بارے میں غلط نہ کہے۔‘
ملائکہ نے بتایا کہ وہ باکسنگ کرنے والی بلوچستان کی واحد لڑکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے کئی مرتبہ رِنگ میں بھی ہم عمر لڑکوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑا۔ ’الحمداللہ میں نے لڑکوں سے مقابلے جیتے بھی ہیں۔ مقابلے سے پہلے لڑکے کہتے ہیں کہ ہم جیتیں گے مگر میں کہتی ہوں پہلے مقابلہ کریں پھر پتہ چلے گا کہ جیت کس کی ہوتی ہے۔‘


ملائکہ باکسنگ کھیلنے والی بلوچستان کی واحد لڑکی ہے۔

کوچ غلام نبی کے مطابق ملائکہ پیشہ ورانہ انداز میں باکسنگ کرتی ہیں اور مزید کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہیں ۔ لڑکیوں کے لیے کوئی اکیڈمی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں انہیں لڑکوں کے ساتھ ہی تربیت دینا پڑتی ہے جس کی وجہ سے بے اطمینانی ہوتی ہے ۔ ’اگر لڑکیوں کیلئے الگ کلب اور سہولتیں ہوں تو مزید لڑکیاں بھی اس میدان میں سامنے آ سکتی ہیں۔‘
ملائکہ زاہد نے منی اولمپلکس سمیت کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ملکی سطح پر ہونے والے تقریباً دس مقابلوں میں حصہ لیا اور سبھی میں کامیابی حاصل کی ۔ ان میں بھی چھ میں انہیں بہترین باکسر قرار دیا گیا۔
ملائکہ کے مطابق باکسنگ میں نام بننے سے پہلے جو خاندان والے کہتے تھے کہ یہ لڑکی ہے اسے گھر میں رکھنا چاہیے اور باکسنگ کا سخت کھیل لڑکیوں کے لیے نہیں۔ اب وہ بھی ان پر فخر کرتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ باکسنگ شروع کی تو بہت ساری مشکلات تھیں اور اب بھی ہیں مگر والدین نے بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ آپ نے کھیلنا ہے اور جو مشکل بھی آتی ہے اس کا سامنا کرنا ہے۔


ملائکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنے کی خواہاں ہیں

انہوں نے کہا کہ ’میں تو لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ کرلیتی ہوں لیکن کچھ والدین ہیں وہ لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ ٹریننگ نہیں کرنے دیتے، اس لیے میں چاہتی ہوں کہ لڑکیوں کے لیے علٰیحدہ کلب ہوں جن میں لڑکیاں آرام سے ٹریننگ کر سکیں اور کھل کر محنت کر کے بلوچستان اور پاکستان کا نام روشن کریں۔‘
ملائکہ کا کہنا تھا کہ ان کے لیے تعلیم سب سے اہم ہے اس لیے وہ پڑھائی کو توجہ اور ترجیح دیتی ہیں مگر کھیل کے لیے بھی وقت نکالتی ہیں۔ ’رمضان المبارک میں بھی تقریباً تین گھنٹے پریکٹس کرتی ہوں اس کے علاوہ رننگ اور سائیکلنگ بھی کرتی ہوں۔‘
ملائکہ نے مزید کہا کہ ابھی تک انہوں نے صرف ملکی سطح پر باکسنگ کے مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔ ’اب میں چاہتی ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر بھی کھیلوں اور وہاں سے پاکستان کے لیے میڈل لے کر آﺅں۔ اولمپک کھیلوں کے لیے بھی محنت کر رہی ہوں تاکہ میں وہاں سے پاکستان کیلئے میڈل لے کر آﺅں۔‘

شیئر: