Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹرمپ کے ’نسل کشی پر مبنی‘ طنز سے ایران ختم نہیں ہوگا: جواد ظریف

جواد ظریف کا کہنا ہے کہ معاشی دہشت گردی اور 'نسل کشی' پر مبنی طنز سے ایران ختم نہیں ہوگا۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ’نسل کشی‘ پر مبنی طنز سے ایران کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

جواد ظریف صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کو دی جانے والی تازہ ترین دھمکی کا جواب دے رہے تھے جس میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ کے ساتھ جنگ کرنے کی صورت میں ایران اپنے خاتمے کو پہنچ جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے اتوار اور پیر کی درمیانی شب ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اگر ایران جنگ کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کا باضابطہ اختتام ہو گا۔‘

Goaded by #B_Team, @realdonaldTrump hopes to achieve what Alexander, Genghis & other aggressors failed to do. Iranians have stood tall for millennia while aggressors all gone. #EconomicTerrorism & genocidal taunts won't "end Iran". #NeverThreatenAnIranian. Try respect—it works!

— Javad Zarif (@JZarif) May 20, 2019

صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں جواد ظریف نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’ایرانی ہزاروں سالوں سے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ تمام جارحیت پسندوں کا حاتمہ ہو گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا کہ معاشی دہشت گردی اور ’نسل کشی‘ پر مبنی طنز سے ایران ختم نہیں ہوگا۔  

ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ مین ایران کو مخاطب کرتے ہوے کہا تھا کہ ’آئندہ کبھی امریکہ کو دھمکی نہ دے۔‘

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح نہیں کیا کہ وہ ایران کی کن دھمکیوں پر رد عمل دے رہے ہیں۔


صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح نہیں کیا کہ وہ ایران کی کن دھمکیوں پر رد عمل دے رہے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ نے خلیج میں اضافی جنگی بحری بیڑہ تعینات کیا ہے اور ایئرفورس کے بی 52 بمبار طیارے بھی قطر کے عدیدہ ائربیس بھیجے ہیں۔

امریکی صدر کا ایران کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیا گیا پیغام ان کے گذشتہ ہفتے دیے گئے بیانات سے بالکل مختلف ہے جب انہوں نے  اپنے مشیروں کو کہا تھا کہ وہ امریکہ کے ایران پر دباؤ کو تنازعے میں نہیں بدلنا چاہتے۔

قبل ازیں جمعرات کو صحافیوں نے صدر ٹرمپ سے امریکہ اور ایران کی ممکنہ جنگ چھڑنے کا سوال کیا تو صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے ایسا نہیں ہو گا۔

دوسری طرف ایرانی حکومت نے بھی واضح کیا ہے کہ وہ جنگ کی خواہش نہیں رکھتی۔

سنیچر کو ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے سرکاری نیوز ایجنسی ’ارنا‘ کو بتایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان جنگ کے امکانات نہیں ہیں ’کیونکہ کوئی بھی ملک جنگ نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی ایران کے ساتھ خطے میں مقابلہ کرنے کی غلط فہمی رکھتا ہے۔‘


2015 میں ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والا جوہری معاہدہ

ایران کے ساتھ کشیدگی

امریکہ کی ایران کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی ایک وجہ ایران کا سنہ 2015 کے تاریخی جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کی دھمکی دینا ہے۔
ایران نے بین الاقوامی جوہری معاہدے پر عمل درآمد معطل کر کے دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی ایک بار پھر شروع کر دے گا جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کے کام آتا ہے۔
صدر اوبامہ کے دور میں امریکہ کے ساتھ کیے جانے والے جوہری معاہدے کا مقصد ایران پر لگائی گئی معاشی پابندیاں کم کرنا تھا لیکن صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد گذشتہ سال معاہدے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔
چین نے دیگر فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ ہونے والے نیوکلیئر معاہدے پر قائم رہیں۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے فریقین میں امریکہ کے علاوہ  برطانیہ، چین، جرمنی، فرانس اورروس شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے معاہدے کو ناقص قرار دیتے ہوئے ایران پر دوبارہ معاشی پابندیاں لگا دی تھیں۔
گذشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات میں سعودی تیل بردار ٹینکرز پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار بھی امریکہ نے ایران کو ٹھہرایا تھا تاہم ایران کے اس واقعے میں ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں مل سکے۔

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی امریکی عسکری طاقت 

خلیج میں سیاسی صورت حال
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکہ نے خلیج میں ’یو ایس ایس ابراہام لنکن‘ نامی بحری بیڑے کو خطے میں تعینات کیا ہے اور مشرق وسطیٰ میں ایک لاکھ 20 ہزار فوجی بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
ادھر امریکہ نے عراق سے سفارتی عملے کو نکلنے کے احکامات جاری کیے ہیں جس کی وجہ امریکی فوج کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات کو خطرہ بتایا جا رہا ہے۔
جرمنی اور نیدرلینڈ کے فوجیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے عراق میں جاری عسکری ٹریننگ پروگرام معطل کر دیے ہیں۔
سعودی عرب نے بھی اتوار کو پائپ لائن پر ہونے والے ڈرون حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی۔ سعودی عرب کے مطابق یمن میں حوثی باغیوں نے ایران کے کہنے پر سعودی پائپ لائن پر حملہ کیا۔
دوسری جانب ایران نے ان الزامات کر تردید کی ہے ۔

شیئر: