Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈاکٹر نے 16 ماہ کی بچی کا ایڈز ٹیسٹ کرانے کا کہا تو غصہ آیا‘

سندھ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایک خاتون وی آئی وی سے متاثرہ اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے (تصویر: اے ایف پی)
نذیر شاہ کو جب پہلی بار ڈاکٹر نے ان کی 16 ماہ کی بیٹی کی ایچ آئی وی سکریننگ کروانے کا کہا تو وہ معالج پر خاصے برہم ہوئے تھے، لیکن بچی میں مرض کی مثبت تشخیص کے بعد اب وہ رتوڈیرو اور نواحی علاقوں کے لوگوں کو ایچ آئی وی اور ایڈز سے متعلق آگہی فراہم کر رہے ہیں تا کہ آنے والی نسلوں کو اس مہلک مرض سے بچا سکیں۔
سندھ کے شہر لاڑکانہ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع رتوڈیرو میں بینک کی ملازمت کرنے والے نذیر شاہ کی بڑی بیٹی تین برس کی ہے ۔ 16 ماہ کی کی چھوٹی بیٹی کے خون کے نمونوں میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
نذیر شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی بیٹی کافی عرصہ سے بیمار تھی اور وہ رَتوڈیرو میں چائلڈ سپیشلسٹ مظفر گھانگھڑو کے کلینک سے علاج کروا رہے تھے، بعد ازاں وہ اپنی بیٹی کو لاڑکانہ بھی مختلف چائلڈ سپیشلسٹ کے پاس لے کر گئے لیکن افاقہ نہ ہوا۔
تھک ہار کہ انہوں نے رتوڈیرو میں ہی ایک جنرل فزیشن ڈاکٹر عمران اکبر سے مشورہ کیا جس نے جب انہیں بچی کی ایچ آئی وی سکریننگ کا کہا تو وہ بھڑک اٹھے اور ڈاکٹر کو خوب برا بھلا کہا۔ نذیر شاہ نے بتایا کہ انہوں نے پڑھ رکھا تھا کہ یہ مرض تو جنسی تعلقات یا خون کی منتقلی سے پھیلتا ہے، اسی لیے انہیں ڈاکٹر پر غصہ آیا کہ وہ کیسے ان کی ڈیرھ سال کی بچی کے لیے ایسا کہہ رہا ہے، تاہم کافی غور و خوض کے بعد وہ رضامند ہوگئے۔
فروری میں کیے گئے سکریننگ ٹیسٹ میں بچی میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی جسے متعدد لیبارٹریز سے دوبارہ کروا کے تصدیق بھی کی گئی۔ نذیر شاہ اور ان کی اہلیہ کی بھی بلڈ سکریننگ کی گئی تاہم رپورٹس کلیئر آئیں۔
یہ پہلا کیس تھا کہ اتنی چھوٹی بچی میں ایچ آئی وی وائرس پایا گیا ہو جبکہ اس کے والدین کی رپورٹس کلیئر ہوں۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر عمران نے احتیاطً دیگر ایسے بچوں کی بھی بلڈ سکریننگ کروائی جو کافی عرصے سے بیمار تھے۔ یہیں سے اس مرض کی وبائی نوعیت کا علم ہوا کہ یہ مرض کیسے خطرناک حد تک چھوٹے بچوں میں سرایت کر گیا ہے۔

رتو ڈیرو میں قائم ایک کلینک کا بیرونی منظر

ڈاکٹر عمران نے اردو نیوز کو بتایا کہ رتوڈیرو میں اپریل اور مئی میں کروائے گئے سکریننگ ٹیسٹ میں سے اب تک 82 بچوں میں اس مرض کی نشاندہی ہو چکی ہے جس میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر دو ماہ ہے۔ ’وائرس کا شکار ہونے والے تمام بچوں کی عمریں 10 سال سے کم ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ بروقت درست تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے اب تک 12 بچوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
مرض کے وبائی نوعیت اختیار کرنے کی خبر پھیلنے کے بعد سندھ حکومت نے رتوڈیرو اور نواحی علاقوں میں بلڈ سکریننگ کیمپس قائم کیے۔ صوبائی محکمہ صحت کے ترجمان معین کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 20 ہزار سے زائد افراد کی سکریننگ ہوئی ہے جس میں تقریباً 700 افراد میں اس مرض کی موجودگی کی تشخیص ہوئی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ ان میں سے 80 فیصد بچے ہیں۔
سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے قائم کردہ سکریننگ کیمپس کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سکندر نے اردو نیوز کو بتایا کہ جس مریض میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے اسے لاڑکانہ میں قائم ایڈز سینٹر ریفر کیا جاتا ہے جہاں اس کا اندراج کر کے علاج کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ’12 سال سے زائد عمر کے مریضوں کا علاج لاڑکانہ میں ہی ممکن ہے تاہم اس سے چھوٹی عمر کے بچوں کو علاج کے لئے کراچی ریفر کیا جا رہا ہے۔‘
نذیر شاہ جو اپنی بچی کے ساتھ ایک ماہ کراچی کے سول ہسپتال کے چکر لگاتے رہے ان کا کہنا ہے کہ سول ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بچی کے ایچ آئی وی کے ٹیسٹ نہ کرائے اور مختلف دوائیں دیتے رہے جس سے بچی کی حالت بگڑتی گئی۔ نذیر شاہ نے بتایا کہ اس وقت بچی کا علاج آغا خان ہسپتال کی جانب سے ہو رہا ہے اور ڈاکٹر نے دو ماہ کی دوا دے کر دوبارہ چیک اپ کا کہا ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں نذیر شاہ نے اپنی بچی کی بیماری کی وجہ سی اس مرض کے حوالے سے اتنی معلومات اکھٹی کر لی ہیں کہ اب وہ اپنے محلے داروں کو اس حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ ہیں اور انہوں نے انٹرنیٹ پر اس حوالے سے سرچ کر کے بہت سی باتیں اور حفاظتی تدابیر معلوم کیں جن کو مدنظر رکھ کر وہ اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
چھوٹے بچوں میں اس مرض کی موجودگی کے اسباب کی نشاندہی کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کم و بیش تمام متاثرہ بچے رتوڈیرو کے چائلڈ سپیشلسٹ مظفر گھانگھڑو کے زیر علاج رہے تھے جس پر انہیں شامل تفتیش کیا گیا۔ بعدازاں جب ان کی بلڈ سکریننگ ہوئی تو نتیجہ مثبت آیا۔ 

رتو ڈیرو میں ایڈز سے شہر کو بچانے کی تحریک کا سندھی زبان میں لگایا گیا ایک پوسٹر

اس کے بعد یہ الزام عائد کیا گیا کہ ڈاکٹر مظفر ارادی طور پر مرض کے پھیلاؤ کا باعث بنے۔ اس وقت وہ پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے خلاف عائد الزامات کی تفتیش جاری ہے، جب کہ پولیس کے مطابق ڈاکٹر مظفر نے الزامات کو سراسر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنے بے گناہ ہونے کی بات کی ہے۔
جب نذیر شاہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ڈاکٹر مظفر سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں بچی کی بیماری دیکھ کر غصہ تو بہت آتا ہے کہ وہ ڈاکٹر سے بدلہ لیں لیکن وہ کمزور ہیں اور کچھ کر نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ البتہ وہ لوگوں کو معلومات اور آگاہی فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے دوست احباب اور رشتے داروں سے رابطے میں رہتے ہیں۔
دوسری جانب رتوڈیرو اور نواحی علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پہ سکریننگ کا عمل جاری ہے جس میں حیران کن طور پر لوگ خود خون کا تجزیہ کرانے آ رہے ہیں۔ مقامی شہریوں کے مطابق اب تک لوگ اس مرض کو برا جانتے تھے اور اس کے بارے میں بات کرنا بھی تضحیک سمجھتے تھے لیکن اب ان کو اپنے بچوں کی فکر ہے اس لیے سامنے آ رہے ہیں۔
مقامی صحافیوں نے بتایا کہ اس تبدیلی میں کچھ کردار میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی ہے جس نے لوگوں کو آگاہی دی ہے۔ شہر میں اس حوالے سے رتو ڈیرو بچاؤ تحریک بھی شروع ہوئی ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ رَتوڈیرو میں ایڈز سینٹر قائم کرے جہاں ڈاکٹر اور ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس کے علاؤہ متاثرہ افراد کی مالی معاونت کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ 

شیئر: