Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’منی لانڈرنگ روکنے کے لیے پاکستان حوالہ اور ہنڈی نظام پر توجہ دے‘

رپورٹ کے مطابق پاکستان کو منی لانڈرنگ روکنے پر توجہ دینی چاہیے
معروف برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاکستانی حکام کو پیسوں کے غیر قانونی بہاؤ کو روکنے اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے نقد رقوم کی منتقلی کے روایتی طریقوں کی نگرانی کرنے پر زور دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رؤئٹرز‘ کے مطابق رائل یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان کو سب سے پہلے بدعنوانی کے ذریعے ملک سے باہر بھیجی جانے والی رقوم کو روکنے پر توجہ دینی چاہیے اور اس ضمن میں بینکوں اور پیسے کی منتقلی کے دیگر اداروں پر منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات کرنے پر زور دیا جانا چاہیے۔
دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے لیے پاکستان پر گذشتہ کئی برسوں سے بین الاقوامی برداری خاص طور پر مغربی ممالک کی طرف سے مالیاتی شعبے میں بہتری کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
عمران خان بدعنوانی کے خلاف نعرہ لگا کر گذشتہ برس پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔

پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہے
پاکستان اس وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے کے خطرے سے دوچار ہے

انہوں نے اپنی تقریروں میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ بیرون ممالک منتقل کیے گئے کروڑوں ڈالرز پاکستان واپس لائیں گے تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ ناقدین کو ڈر ہے کہ بیرون ممالک میں موجود پاکستانی رقم واپس نہیں لائی جا سکے گی۔  
رائل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ’عمران خان کی طرف سے ملک میں غیر قانونی معاشی سرگرمیوں پر قابو پانے کی واضح خواہش ملک کے اندر اور باہر بسنے والے پاکستانیوں  کو ملکی معاشی نظام بہتر بنانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان اس وقت عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس  کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے سے بچنے کے لیے ملک کے معاشی قوانین کو بہتر کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر پاکستان ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل ہو جاتا ہے تو یہ کمزور ہوتی ہوئی کرنسی، افراط زر اور سست ترقی کا شکار ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہوگا۔
رپورٹ مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کو منی لانڈرنگ پر قابو پانے اور مختلف بنکوں کے درمیان معلومات کے اشتراک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

رائل یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ نے سٹیٹ بنک کو ایکسچیج کمپنیوں پر نظر رکنے کو کہا ہے
رائل یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ نے سٹیٹ بنک کو ایکسچیج کمپنیوں پر نظر رکھنے کو بھی کہا ہے

رپورٹ کے مطابق ’سٹیٹ بنک کے اب تک کے اقدامات اور نگرانی کا طریقہ کار منی لانڈرنگ کے خلاف بنکوں کی توجہ حاصل کرنے میں تو ضرور کامیاب ہوا ہے تاہم ضروری نہیں کہ اس نے کرپشن اور دیگر معاشی جرائم کے خطرات کے حوالے سے بھی بنکوں کی سمجھ بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی توجہ منی ایکسچینج کرنے والی کمپنیوں پر مرکوز کرنی چاہیے۔ رائل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق پاکستان کو خاص طور پر حوالہ یا ہنڈی کے کاروبار پر قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ ہنڈی کے ذریعے صارفین بڑی رقوم دوسرے ممالک میں بآسانی منتقل کر سکتے ہیں۔  
’رؤئٹرز‘ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کے لیے بنک رقوم کی منتقلی کا قابل بھروسہ نظام ہیں تاہم بیشتر کاروباری ادارے غیر منظم ہیں اور ایک بار جب پیسہ پاکستان چھوڑ جاتا ہے تو اس کا پتا چلانا اور حساب رکھنا بہت مشکل ہے۔
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کہتے ہیں کہ ہنڈی کے ذریعے دہشت گردوں اور منشیات کے سمگلرز کو پیسہ بھیجا جاتا ہے۔
رائل انسٹی ٹیوٹ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان پر رجسٹرڈ ایکسچیج کمپنیوں کی ممکنہ غیر قانونی سرگرمیوں اور بغیر لائسنس کے کام کرنے والی حوالہ/ہنڈی کمپنیوں کی سرگرمیوں سے جڑے خطرات کے حوالے سے بنکوں میں شعور کے فروغ پر زور دیا ہے۔

شیئر: