Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینچریاں نہیں ذمہ داری نبھانے والے کی ضرورت ہے

(تصویر: اے ایف پی)
سات جون 2013 کے دن آئی سی سی چیمپینز ٹرافی میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں تو اوول کے میدان پر ویسٹ انڈیز کے کپتان ڈیوئن براوو نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا۔ 
15رنز پر تین وکٹیں گرنے کے بعد اس وقت کے کپتان مصباح الحق نے کیپٹن اننگز کھیلی، کسی کھلاڑی نے ساتھ نہ دیا لیکن مصباح نے 127 گیندیں کھیل کر 96 رنز بنائے اور پاکستان 170رنز بنانے میں کامیاب رہا اور تگڑی فائٹ کےبعد صرف دو وکٹوں سے میچ ہارا۔ 

31 مئی 2019 کو آئی سی سی ورلڈ کپ میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ابر آلود موسم میں ویسٹ انڈیز کے لمبے تڑنگے فاسٹ بولرزکے خلاف 62 رنز پر تین وکٹیں گرنے کے بعد بابر اعظم نے آف سٹمپ سے بہت دور گیند پر جو غیر زمہ درانہ  شاٹ کھیلا اسے دیکھ کر 2013  میں ٹک ٹک کرنے والے مصباح الحق یاد آ گئے جو تمام تنقید کو برداشت کرکے بھی جاوید میانداد کے فلسفے کہ مشکل حالات میں میچ لمبا کردو پرعمل کرکے پاکستان کو آؤٹ کلاس ہونے سے بچا گیا تھا۔

ناٹنگھم میں جب ویسٹ انڈیزکے دراز قد فاسٹ بولرزنے سیم اور سوئنگ نہ ہونے دیکھ کر صرف باونس کا ہتھیار بنایا تو پاکستان کو بچانے والا کوئی نہیں تھا۔

پاکستان مسلسل گیارہواں ون ڈے ہارا جو پاکستان کی ون ڈے تاریخ کی سب سے بدترین کارکردگی بن گئی۔

آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں پانچ اور حالیہ انگلینڈ سیریز میں پاکستانی بیٹسمینوں نے چارسینچریاں بنائیں لیکن یہ سینچریاں کس کام کی؟

امام، فخر اور بابر سب کی ایوریج ورلڈ کلاس لیکن پاکستان ٹیم کی کارکردگی ایوریج بھی نہیں۔ ماضی میں ٹاپ آرڈر ناکام ہونے کے بعد جاوید میانداد، پھر بعد میں انضمام الحق اور محمد یوسف نے کئی بار اس ٹیم کو مشکلات سے نکالا، لیکن پاکستان کی بیٹنگ آرڈز میں ذمہ داری لینا والا کوئی نہیں۔

62 رنز پر تین وکٹیں کھونے کے بعد جب پاکستانی ٹیم اورعوام ورلڈ کلاس بابر اعظم سے ایک اچھی اور ذمہ درانہ اننگز کی توقع کر رہے تھے تو وہ ایسا شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے جس کی توقع ماضی میں جاوید میانداد، انضمام الحق، مصباح الحق سے نہیں کی جا سکتی تھی۔

محمد حفیظ، کپتان سرفراز، عماد کی شارٹ پچ بولنگ پر بیٹنگ دیکھنے کے بعد جب وہاب ریاض نے دو بڑے چھکے لگائے  تو شائقین کرکٹ کے بلڈ پریشر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ بہت سے شائقین کرکٹ کے ذہن کی اختراع کی طرح پاکستان اور سرفراز ٹاس ہار کر میچ بھی ہار گئے تھے؟ تو بھائی جواب یہ ہے کہ 1999 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں وسیم اکرم اور پاکستان ٹاس جیت کر بھی فائنل میں سٹیو وا کی ٹیم سے بری طرح ہار گئے تھے۔

ورلڈ کپ میں سرفراز الیون کو کچھ کرنا ہے تو سوچ مثبت رکھنی ہوگی۔ اس دورکی کرکٹ کی طرح جارحانہ کھیل دکھانا ہو گا۔ اسی کے سٹرائیک ریٹ سے کھیلنے والے ٹاپ چھ بیٹسمینوں کی موجودگی میں 130 کے سٹرائیک ریٹ سے کھیلنے والے آصف علی کو ڈراپ نہیں کندھے پر تھپکی دینا ہوگی۔

جنون بینڈ کے گٹارسٹ سلمان احمد نے میچ پر تبصرہ کیا کہ 1992 ورلڈ کپ میں پاکستان پہلا میچ ویسٹ انڈیز ہارا لیکن ورلڈ کپ جیتا تھا۔ سلمان بھائی سوال صرف اتنا ہے کہ عمران خان جیسا کپتان اور جاوید میانداد جیسا ذمہ داری سے کھیلتا اور لڑتا فائٹر بیٹسمین کہاں سے لائیں؟ اور جاوید میانداد نہ سہی لیکن چیف سلیکٹر انضمام الحق کو کم ازکم ایک اور انضمام الحق ڈھونڈنا ہوگا۔  

شیئر: