Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہر خاندان : ’وزیراعلیٰ ہاؤس کی محفلیں‘

علی محمد مہر کے دور وزارت اعلیٰ میں یہ بازگشت بھی سنی گئی کہ رات کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں رقص و موسیقی کی محفلیں سجتی ہیں جن میں وزیراعلیٰ بھی شریک رہتے ہیں۔
 کئی برس بعد ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں جب ان سے ان محفلوں کے بارے میں پوچھا گیا تو سردار علی محمد جواب گول کر گئے۔
 انہوں نے واضح الفاظ میں تصدیق کی نہ تردید اور کہا کہ ’وزیراعلیٰ ہاؤس میں عام لوگوں کی طرح زندگی گزاری۔‘
علی محمد مہر کے قریبی دوست سندھی صحافی لالا رحمان سموں نے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں رقص و سرور کی محفلوں کی تردید کی اور کہا کہ البتہ رات کو محفلوں میں انتاکشری ضرور کھیلتے تھے۔ جس میں شرکا محفل میں سے ہر ایک باری باری کوئی گانا سناتا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سردار علی محمد رات کو سرخ رنگ کا گاؤن پہنتے تھے جس کی وجہ سے بات کا بتنگڑ بنا دیا گیا۔ 

مہروں نے ہر حکومت کا ساتھ دے کر ذاتی فوائد ضرور حاصل کئے، تاہم انہوں نے اپنے زیر اثر علاقے میں سڑکوں کا جال بھی بچھایا۔ تصویر فیس بک

 رحمٰن سموں بتاتے ہیں کہ مرحوم علی محمد مہر موسیقی اور رقص کو سمجھتے تھے اور انہوں نے ہی مجھے رقص میں فُٹ سٹیپ سمجھائے۔ شاید انہوں نے یہ فرانس میں ایک عرصہ گزارنے کے دوران سیکھا۔
 رواں سال اپریل میں جب وہ وفاقی وزیر نارکوٹکس کنٹرول تھے تو کراچی میں واقع ان کے گھر میں گھسنے والے مسلح ملزمان نے انہیں سر پہ وزنی چیز مار کر زخمی کر دیا۔ یہ معمہ ابھی حل نہیں ہوا تھا کہ علی محمد مہر گذشتہ ماہ حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔ 
مہروں نے ہر حکومت کا ساتھ دے کر ذاتی فوائد ضرور حاصل کیے، تاہم انہوں نے اپنے زیر اثر علاقے میں سڑکوں کا جال بھی بچھایا۔ شکارپور کے مہر سکے کا دوسرا رخ ہیں جو زیادہ کھردرا ہے۔

 


مہر سرداروں کے بنگلے پر کوئی بھی جوتا پہن کر اندر نہیں جاسکتا سوائے مہر سرداروں کے۔: تصویر فیس بک

مہر خاندان منتشر کیسے ہوا؟

سردار غلام محمد مہر کے انتقال کے بعد مہر خاندان ساڑھے تین عشروں تک اکٹھا رہا تاہم ان دنوں سیاسی طور پر منقسم ہے۔ 2018 کے عام انتخابات کے موقعے پر مہر خاندان نے ضلعے کے لگ بھگ تمام قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ٹکٹس مانگے۔
 پہلی مرتبہ مہر خاندان نے ایک دوسرے کے خلاف ووٹ کیا۔ علی گوہر مہر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ ان کے بھائی علی محمد مہر تحریک انصاف میں شامل ہو کر مملکتی وزیر بنے۔ دوسرے بھائی راجا مہر پیپلز پارٹی کے ساتھ ہیں۔ 
 گذشتہ سال دسمبر میں سندھ میں ان ہاؤس تبدیلی کے لیے مہر فیملی سرگرم ہوئی لیکن جی ڈی اے اور تحریک انصاف کے درمیان وزارت اعلیٰ کے عہدے پر اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 

پیر پگارا سے قربت کی وجوہات 


 مہروں کی سرداری میں پگارا کے مریدین کافی بڑی تعداد میں ہیں۔ تصویر فیس بک

مہروں کی پیر پگارا سے طویل سیاسی و سماجی قربت رہی۔ بڑے پگارا شاہ مردان شاہ راشدی مرحوم جب لندن سے جلاوطنی گزار کر لوٹے تو ان کی دستار بندی کی رسم میں جو درجن بھر افراد شریک ہوتے ان میں غلام محمد مہر بھی تھے۔
 مہروں کی سرداری میں پگارا کے مریدین کافی بڑی تعداد میں ہیں۔جذباتی لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ پیر علی گوہر شاہ راشدی خان گڑھ سے واپس جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر بعض جرائم پیشہ افراد نے فائرنگ کی۔ اطلاع ملنے پر علی محمد مہر نے ضلع بھر سے پولیس گاڑیاں منگوا کر جائے وقوعہ کے قریب واقع گاؤں کو مسمار کر دیا۔ 

سماجی اطوار اور طریقہ ’واردات‘

مزاج میں اتنے گہرے کہ پتا ہی نہ چلتا کہ سردار ناخوش ہیں یا خوش، مہر سردار اوطاق یا بیٹھک کے رسیا لوگ ہیں جہاں ہر وقت کھانا چلتا رہتا ہے۔ علاقے میں مہروں کے لال سفید سالن مشہور ہیں۔ 
مہر سرداروں کے بنگلے پر کوئی بھی جوتا پہن کر اندر نہیں جا سکتا سوائے مہر سرداروں کے۔ اسی طرح عام لوگ اوطاق میں کرسی یا صوفے پر بیٹھ نہیں سکتے، یہ ماضی کی بات ہے۔ 
سردار علی گوہر کے بیٹے حاجی خان مہر برادری میں تعزیت کرنے گئے تو وہاں اس خاندان کے لوگوں نے سردار کے ساتھ کرسی پر بیٹھ کر تعزیت وصول کی۔ حاجی خان مہر نے جب اپنے والد کو بتایا تو اسی وقت بلدوزر اور ٹریکٹر منگوا کر خانپور مہر میں موجود ان لوگوں کی دکانیں گرادیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ خواہ مخواہ کسی سے زیادتی نہیں کرتے۔

 مہر ہر جمعے کو کچہری لگاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑے منشیوں یا چھوٹے وڈیروں کو ریفر کرتے ہیں،: تصویر وکی پیڈیا کامنز

دلیل میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کے رویے کی وجہ سے مہروں میں سے کوئی بڑا ڈاکو یا چور پیدا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے خود بھی سرکاری زمین حاصل کی اور اپنے لوگوں کو بھی سرکاری زمین دلوائی۔ 
سیاہ و سیفد کے مالک ہونے کا عالم یہ ہے کہ خانپور یا مہروں کے زیر اثر علاقے میں کوئی بھی شخص زمین خرید کرے گا تو اس کے نام پر کھاتہ نہیں بن سکے گا کیونکہ اس کے لیے سردار کی باقاعدہ منظوری ضروری ہے۔ لہٰذا صرف سٹامپ پیپر پر لکھ کر دی جائے گی۔
مہر ہر جمعے کو کچہری لگاتے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑے منشیوں یا چھوٹے وڈیروں کو ریفر کرتے ہیں، بڑے فیصلے خود کرتے ہیں۔ برادریوں کے تصادم اور قتل کے فیصلے دوسرے سرداروں کے ساتھ جرگے میں کرتے ہیں۔ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے پابندی کے باوجود مہر سردار جرگے منعقد کرتے رہے۔

مہر سرداروں کا انداز سیاسی و زمینداری دوسرے وڈیروں سے مختلف ہے: تصویر فیس بک

مہر خاندان کو حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد اقتدار اور اختیار کا ٹھیک سے اندازہ ہوا کہ پولیس پروٹوکول حاکمیت کی علامت ہے۔ اس سے لوگوں پر رعب بٹھایا جا سکتا ہے۔
اب جب پولیس پروٹوکول نہیں ملتا، تب پولیس موبائل جیسی بنائی ہوئی اپنی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ جس میں کالے کپڑوں میں ملبوس نجی گارڈ بیٹھے ہوتے ہیں۔ 
مہر سرداروں کا انداز سیاسی و زمینداری دوسرے وڈیروں سے مختلف ہے۔ ان کے پاس ایک منظم مکینزم ہے۔ منشی، کمدار اور ہر گاؤں میں ایک چھوٹا موٹا وڈیرہ اپنے ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر پولیس، تحصیلدار اور آبپاشی کا داروغہ آپ کے ساتھ ہیں تو سیاست آسان ہے۔ اس مقصد کے لیے ان عہدوں پر پسند  کے افسر تعینات کراتے ہیں۔ وہ براہ راست اپنے مخالفین کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومتی یا ریاستی مشینری استعمال کرتے ہیں۔

شیئر: