Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اشرف غنی کا دورہ پاکستان، افغان امن کے لیے بریک تھرو ہو گا؟

افغان صدر نے دورہ پاکستان میں وزیراعظم اور آرمی چیف سمیت اہم حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ تصویر: اے ایف پی
افغانستان کے صدر اشرف غنی ساڑھے چار سال کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دو طرفہ دورہ کر رہے ہیں۔
افغان صدر کا دورہ پاکستان اگرچہ پہلے سے طے شدہ تھا تاہم بدھ کو امریکی وزیر خارجہ کے کابل میں طالبان کے ساتھ ستمبر تک امن معاہدے سے متعلق بیان کے بعد اشرف غنی کے دورہ پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان سے تعاون حاصل کرنے آئے ہیں۔

امن معاہدہ، امکانات کیا ہیں؟

 امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار میں ہونے والی پیش رفت اور امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے بیانات کو سامنے رکھا جائے تو امریکی وزیر خارجہ کا بیان حقیقت پسندانہ دکھائی دیتا ہے لیکن افغان امورکے ماہر سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ امریکہ نے افغان مفاہمتی معاہدے کیلئے اپنے طور پر ستمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کی ہے کیونکہ اس کے بعد افغان صدارتی انتخابات منعقد ہونے ہیں۔ انتخابات کے بعد نیا صدر آنے کی صورت میں کسی بھی امن معاہدے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔

حالیہ کچھ عرصے میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ امریکی خواہش اپنی جگہ لیکن ابھی تو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہی کافی فاصلہ ہے اور اس صورتحال میں کوئی ڈرامائی پیش رفت ممکن نہیں۔
مزارشریف میں کئی سال تک سفارتکاری کے فرائض سرانجام دینے والے ایاز وزیر کہتے ہیں کہ یہ اشرف غنی کا دوطرفہ دورہ ہے اس لیے امن معاہدے سے اس کا کوئی جوڑ نہیں لیکن یہ بھی ممکن نہیں اس میں امن عمل پر بات نہ ہو۔ ’اس لیے بات تو ضرور ہو گی لیکن افغان مفاہمتی عمل افغانوں کا اپنا معاملہ ہے اس لیے اشرف غنی کو چاہیے کہ ‘ایسے حالات پیدا کریں کہ طالبان ان سے بات چیت کے لیے آمادہ ہو جائیں تاکہ امن معاہدہ ممکن ہو۔

پاکستان کا کردار کیا ہو گا؟

پاکستان نے افغان مفاہمتی عمل میں اپنے لیے سہولت کار کا کردار پسند کیا اور 2015 میں مری میں ہونے والے مذاکرات ہوں یا متحدہ عرب امارات اور قطر میں امریکہ طالبان مذاکرات، ہر جگہ پاکستان نے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفیر ایاز وزیر نے کہا کہ امریکہ اور افغان حکومت چاہتے ہیں کہ پاکستان نے جس طرح طالبان کو پہلے مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کیا اب وہ انہیں افغان حکومت کے ساتھ بٹھانے میں بھی مدد دے۔

پاکستان امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تصویر: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسی کوشش تو کر سکتا ہے لیکن طالبان کو کان سے پکڑ کر افغان حکومت کے ساتھ نہیں بٹھا سکتا۔
اس حوالے سے افغان امور کے ماہر سینیئر صحافی طاہر خان کہتے ہیں کہ اگر امن معاہدہ ہوتا ہے تو اس میں پاکستان کا کردار ضامن کا ہو گا تاکہ فریقین کے درمیان طے پانے والے نکات پر ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے عملدرآمد کرائے اور کسی بھی ممکنہ خانہ جنگی کو روکنے میں مدد دے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کو افغانستان کے انفراسٹرکچر کی بحالی میں بھی کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاک افغان تعلقات میں اعتماد کا فقدان

افغان صدر ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں جب دونوں ملکوں کے تعلقات مثالی نہیں  بلکہ دونوں ایک دوسرے کی سرزمین اپنے خلاف استعمال ہونے کے الزامات لگاتے رہے ہیں اور ماضی قریب میں افغان صدر کے متنازعہ ٹویٹس سے بھی باہمی تعلقات کو دھچکہ لگا۔
تجزیہ کار سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ اشرف غنی کا لب ولہجہ اپنے انتخابات کی وجہ سے تبدیل ہوا ہے اور وہ مقامی سطح پر اپنا بہتر تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشرف غنی نے پشتون تحفظ موومنٹ کے معاملے پر سخت ٹویٹس کیے لیکن میران شاہ کے حالیہ واقعے پر خاموشی اختیار کی۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں اب بھی پاکستان کو طالبان کا ہمدرد یا پشت پناہی کرنے والا ملک سمجھا جاتا ہے جو باہمی اعتماد میں کمی کا باعث بنتا ہے۔
پاکستان کو افغان حکومت سے بڑا گلہ یہ ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے لیکن افغان حکوت کا جھکاؤ انڈیا کی طرف ہے۔ اس پر سابق سفارتکار ایاز وزیر کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ پاکستان طالبان سے اپنا تعلق یکسر توڑ دے اور افغانستان انڈیا کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کر دے۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ دونوں کے تعلقات ایک دوسرے خلاف استعمال نہ ہوں۔

پاک افغان تعلقات میں بہتری کیسے آئے؟

اشرف غنی نے نہ صرف پاکستان کی حکومتی شخصیات صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ اور آرمی چیف سے ملاقاتیں اور دو طرفہ مذاکرات کیے بلکہ اپوزیشن رہنماؤں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے بھی ملاقات کی۔

 امن معاہدے میں ایک بڑی رکاوٹ افغانستان میں موجود امریکی فوج کے مستقبل کے بارے واضح فیصلہ نہ ہونا ہے

 ان ملاقاتوں میں باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دورہ کابل کے دوران تنازعات کے حل کا باہمی میکانزم تشکیل دیا گیا تھا جسے ’افغانستان پاکستان ایکشن پلان فار پیس اینڈ سالیڈیرٹی‘ ) کہا جاتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اگر دونوں ممالک آپس کے تعلقات کو بہتر بنانے میں سنجیدہ اور دوریاں ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اس میکانزم کو فعال اور موثر بنانا ہو گا۔

شیئر: