Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سہیل وڑائچ کا کالم: پھر آگیا پانچ جولائی

مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 42 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے (اے ایف پی فوٹو)
بالکل ان دنوں جیسا ہی موسم تھا میں انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا، سرگودھا گورنمنٹ کالج کے ہاسٹل میں مقیم تھا، بھٹو دور کا عروج تھا کہ عام انتخابات کا اعلان ہو گیا۔
سرگودھا گول باغ میں قومی اتحاد کا جلسہ ہوا تو طالب علم بھی اس میں کشاں کشاں گئے۔ بھٹو کا انتخابی جلسہ سرگودھا سٹیڈیم میں ہوا اپنے اندر کےسیاسی کیڑے کی وجہ سے میں بھی دیکھنے گیا۔ سٹیج پر صرف ایک کرسی تھی جس پر بھٹو صاحب بیٹھے تھے، گورنر، وزیراعلیٰ اور آفسر ہاتھ باندھے کھڑے تھے بھٹو نے چن چن کر اپنے مخالفوں کو نشانہ بنایا کہا یہ مفتی ی، یہ نورانی ی، یہ مزاری ی، سب میں چھوٹی ی لگتا ہے یہ سب حلوہ خور اور نااہل ہیں۔
دونوں فریق اپنے جوبن پر تھے طبیعت کے اندر چھپے باغی کی وجہ سے میرا وزن قومی اتحاد کے پلڑے میں تھا حالانکہ چچا ارشد کے سوا میراسارا خاندان پیپلزپارٹی کا حامی تھا۔
انتخابی بخار بڑھا تو میں بھی ہر انتخابی جلوس میں موجود ہوتا، کبھی بسوں کی چھتوں پر سوار ہوتا تو کبھی میلوں پیدل چلتا۔ اس دوران ہمارے ہی ہاسٹل کا ایک نوجوان بس سے گر کر جاں بحق ہوا۔ میرے گھر والوں کو خبر ہو گئی کہ میں کچھ زیادہ ہی متحرک ہوں۔ میرے دونوں چچا آئے اور مجھے ہاسٹل سے لے کر گھر چھوڑ آئے۔ چنانچہ قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک میں نے گھر میں نظر بندی گزارتے ہوئے دیکھی۔
ہر روز کھوکھوں اور نائی کی دوکان پر جا کر اخبار پڑھتا۔ ’مساوات‘ سے لے کر ’مشرق‘ اور ’جنگ‘ تک سبھی مجھے ازبر ہوتے گھر پر انگریزی اخبار ’پاکستان ٹائمز‘ آتا تھا جس میں کوئی مزیدار اور مصالحے دار سیاسی خبر نہیں ہوتی تھی، وہ اخبار صرف انگریزی بہتر کرنے کے لیے پڑھا جاتا۔
قومی اتحاد کی تحریک چلی، جلسے جلوس اور گھیراؤ جلاؤ ہوتا رہا۔ اور پھر آگیا پانچ جولائی۔

22 اپریل 1977 کو راولپنڈی میں بھٹو کے خلاف مظاہرے کا منظر (اے ایف پی فوٹو)

تھا تو یہ کھلم کھلا فاؤل پلے مگر اس کا خفیہ نام آپریشن فیئر پلے تھا۔ راتوں رات بھٹو اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو رخصت کر کے اس کے اہم رہنماؤں کو حراست میں لیا گیا۔ قومی اتحاد کی قیادت بشمول مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، اصغر خان اور نورانی میاں بھی نظر بند کر دیے گئے۔
شروع کے چند دن تو لگا کہ مارشل لا کے بعد 90 دن بعد الیکشن ہو جائیں گے اور جمہوریت پھر سے چل پڑے گی مگر اس سیاہ دن مکمل جمہوری اقتدار کا جو سورج غروب ہوا وہ 42 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک گہنایا ہوا ہے۔
جمہوری چکا چوند کے بعد آمریت کی لمبی رات اور پھر آدھا تیتر آدھا بٹیر نظام نے ماضی کے رومانس میں اضافہ کر دیا۔ میری سیاسی قلب ماہیت اور کایا کلپ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کی کارروائی پڑھتے پڑھتے ہوگئی۔

مجھے یوں لگا کہ سارا نظام سازش کے تحت بھٹو کو انصاف نہیں دے رہا اور اس کا عدالتی قتل کیا جا رہا ہے اسی عدالتی کارروائی کے دوران اپنے دوراقتدار کا جابر بھٹو مظلوم بھٹو میں تبدیل ہو چکا تھا۔

جوں جوں وقت گزرتا گیا 90 روز سالوں اور پھر پوری دہائی تک پھیل گئے ضیا آمریت سے طالب علموں، عورتوں، وکیلوں اور سیاستدانوں کے اختلاف بڑھتے گئے۔ ہمارا یونیورسٹی کا زمانہ گھٹن اور دباؤ میں گزر گیا ’یہ نہیں کرنا اس کی اجازت نہیں ہے۔‘
ضیا آمریت کا آسیب معاشرے پر اس قدر غالب آگیا کہ اقدار ہی بدل گئیں۔ مصنوعیت، منافقت اور جارحیت عام ہو گئی۔ توازن، اعتدال اور برداشت کی خوبیاں غائب ہو گئیں۔ اب ضیا دور کو گئے کئی دہائیاں گزر گئیں مگر اس کا آسیب آکاس بیل کی طرح معاشرے کو ایسا چمٹا ہے کہ اسے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہے۔ فرقہ بندی، ذاتیں، خانہ جنگی ، کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر وہ تحفے ہیں جو پانچ جولائی کا آپریشن فیئر پلے پاکستان کو سونپ دیا گیا۔
لاکھ کوششوں کے باوجود ہم پانچ جولائی 1977سے پہلے والا پر سکون معاشرہ واپس لانے میں ناکام ہیں۔

 بھٹو کی گرفتاری کے بعد 20 ستمبر 1977 کو بیگم نصرت بھٹو نے راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کیا 

دوسری طرف جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں روسی مداخلت کے خلاف امریکہ کی مدد سے عملی مزاحمت اور خفیہ امداد کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پڑوس میں تیسری عالمی جنگ کے شعلے بلند ہوتے رہے پاکستان میں بھی اس آگ سے بہت کچھ بدل گیا۔ تخریب کاری، بم دھماکے، افغان مہاجرین اور ہیروئین اور کلاشنکوف جیسی وبائیں اسی جنگ کا نتیجہ تھیں۔
عالمی سامریت کا ساتھ دیتے دیتے جنرل ضیا الحق نے اپنے توسیعی عزائم کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔ افغانستان تو آخر تک ان کا میدان عمل رہا۔ ساتھ ہی ساتھ روس اور چین کے مسلم شدت پسندوں کو بھی پاکستان لا بٹھایا۔ انڈیا کے سکھوں میں آزادی کی تحریک کے حوالے سے بھی امداد شروع کی۔
اپنی ذات سے بڑے اور اپنی ریاست سے کہیں عظیم تر منصوبے با لآخر ناکام ہو گئے اور ان کا خواب میں بنایا ہوا تاج محل ان کی زندگی کے ساتھ ہی گر پڑا۔ ان کی توسیع پسندانہ اور شدت پسندانہ پالیسیاں آج بھی پاکستان کے گلے پڑی ہوئی ہیں۔ اسامہ بن لادن پر حملہ اور پھر دنیا بھر میں دہشت گردی کے نشانات کا ہمارے ملک تک پہنچنا دراصل جنرل ضیا الحق کی بوئی ہوئی وہ فصل ہے جسے ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔

جنرل ضیا الحق نے افغانستان میں امریکہ کی مدد سے عملی مزاحمت کا سلسلہ شروع کیا (اے ایف پی فوٹو)

جنرل ضیا الحق نے سیاست کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انہوں نے ایک ایسی پود تیار کی جو ترقیاتی فنڈز کے کمیشن سے اپنی سیاسی راجد ھانی مضبوط بناتی رہے۔
سیاست میں کرپشن، کمیشن اور اجارہ داری جنرل ضیا الحق کے دور میں عام ہوئی۔ سیاسی جماعتیں کمزور اور انتخابی گھوڑے مضبوط ہو گئے۔ خود ریاستی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ 1985کی سیاسی نسل نے بہت نقصان پہنچایا۔ باجوہ ڈاکٹرائین میں اس خاص طبقے کی بیخ کنی بھی شامل ہے۔
پانچ جولائی 1977کو گزرے 42 سال ہو گئے مگر اس کے اثرات کی اندھیری رات لمبی سے لمبی ہوتی جارہی ہے۔ آزادی ، مساوات اور بھائی چارہ جاتا رہا۔
ان سالوں میں ایک تبدیلی البتہ صاف نظر آتی ہے کہ کوئی سیاسی جماعت یا کوئی بھی ادارہ، جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں کا مداح نہیں رہا ایک عمومی اتفاق رائے ہے کہ پانچ جولائی 1977 اور اس کے بعد 11سال تک جنرل ضیا الحق نے جو کیا وہ ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ ان پالیسیوں سے ملک کمزور ہوا، عوام تقسیم ہوئے اور ہم سب غیر محفوظ ہوئے۔

شیئر: