Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا میں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

پانی کے بحران سے امیر اور غریب طبقے میں عدم مساوات مزید بڑھ رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل انڈیا کے گنجان آباد دارالحکومت نئی دہلی میں بد ترین خشک سالی امیر اور غریب طبقے کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات کو مزید بڑھا رہی ہے۔
مرکزی دہلی کے وسیع و عریض گھروں اور لگژری اپارٹمنٹس میں رہنے والے سیاستدان، سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد پائپ لائن کے ذریعے مہینہ بھر اپنے واش رومز اور کچن کے استعمال کے علاوہ گاڑیاں دھونے، کتے نہلانے اور گھر کے باغیچے کو سیراب کرنے کے لیے لامحدود پانی صرف 10 سے 15 ڈالرز میں خرید سکتے ہیں۔
دوسری طرف کچی آبادیوں یا مرکزی شہر کے گردونواح میں آباد نسبتاً غریب طبقے کی کالونیوں میں رہنے والوں کو محدود مقدار میں پانی لینے کے لیے روزانہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔ اس طقبے کو پانی کی سپلائی پائپ لائن سے نہیں بلکہ ٹینکرز کے ذریعے کی جاتی ہے اور دن بدن پانی کی کم ہوتی سپلائی کے ساتھ اس کی قیمت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا میں پانی کا بحران انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں امیر طبقے کو اس بحران سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ غریب عوام کو پانی کے حصول کی خاطر روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
انڈین وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ سمیت زیادہ تر قانون سازوں کی سرکاری رہائش گاہیں مرکزی دہلی میں ہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کو پانی کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر ایک بڑے پروگرام کا اعلان کرنے میں کئی سال لگے۔
غریب علاقوں کے رہائشیوں کو پانی لینے کے لیے قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔ فوٹو اے ایف پہ
غریب علاقوں کے رہائشیوں کو پانی لینے کے لیے قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

پالیسی سازوں اور ماہرین کے مطابق آبی ذخائر اور واٹر ٹیبل میں کمی کے حوالے سے سالہا سال سے کئی وارننگز کے بعد مودی حکومت کی طرف سے پہلی بار ایسا کوئی بڑا پروگرام متعارف کروایا گیا ہے۔
ٹیلی کام کمپنی میں بطور سیلز ریپریزنٹیٹو کام کرنے والے امر ناتھ شکلا دہلی کے جنوب میں ایک غیر قانونی ہاؤسنگ کالونی میں رہتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ہفتہ وار کوٹے سے اپنی بیوی اور تین بچوں کے لیے ٹینکر کے ذریعے دو ہزار لیٹر پانی لینے کے لیے وہ سات سو روپے (10 ڈالر) ادا کرتے ہیں۔
صرف ایک سال قبل شکلا 500 روپے میں پانی سے بھرے دو ٹینکرز خرید لیتے تھے تاہم پانی کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافے کی وجہ سے اب وہ ہفتے میں ایک ہی ٹینکر خریدتے ہیں۔
شکلا پوچھتے ہیں کہ ’ایک گنجان آباد علاقے کو اتنا کم پانی ملتا ہے جبکہ نسبتاً کم آبادی والے دہلی کے مرکزی ضلع کو زیادہ پانی کیوں ملتا ہے؟‘
رؤئٹرز نے سنگم وہار ضلع کے جن 30 سے زائد رہائشیوں سے بات چیت کی ان سب نے پانی کے معیار پر بھی سوال اٹھائے۔
پیٹ کے درد اور معدے کے انفیکشن سے متعلق ادویات کا نسخہ دکھاتے ہوئے 46 سالہ دلیپ کمار نے بتایا کہ ’گزشتہ برس تک میں پانی فروخت کرنے والے مقامی افراد سے پانی خرید کر پیتا تھا لیکن پھر میں بیمار ہو گیا اور ڈاکٹر نے مجھے بڑی کمپنیوں کی طرف سے تیار کیا جانے والا بوتل واٹر پینے کا  مشورہ دیا۔‘

’پانی پر گینگز کا قبضہ‘

دہلی کے مرکزی سرکاری ضلعے اور آرمی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہر رہائشی کو تقریباً 375 لیٹر پانی ملتا ہے جبکہ سنگم وہار کے ضلعے کے ہر رہائشی کے حصے میں یومیہ صرف 40 لیٹر پانی آتا ہے۔ کنوؤں سے نکال کر یہ پانی شہر میں سرکاری ادارے دہلی واٹر بورڈ کی زیر نگرانی ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہے۔
لیکن مقامی رہائشی کہتے ہیں کہ پانی کے کچھ کنوؤں پر جرائم پیشہ گینگز اور مقامی سیاستدانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ان گینگز کا غیر قانونی طور پر پانی کے پرائیویٹ ٹینکرز بیچنے میں بھی بڑا کردار ہے۔
 دہلی نے رواں سال جون میں خشک سالی کا 26 سالہ ریکارڈ توڑا ہے
ٹینکر کے ذریعے دو ہزار لیٹر پانی سات سو روپے میں ملتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

یہ سب ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب دہلی نے رواں سال جون میں خشک سالی کا 26 سالہ ریکارڈ توڑا ہے اور 10 جون کو یہاں 48 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔  
مون سون کی بارش ایک ہفتے سے زائد کی تاخیر کے بعد جمعرات کو دالحکومت پہنچی ہے مگر محض بوندا باندی ہوئی۔
حکومت کی جانب سے کی گئی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ دہلی میں پرائیویٹ ٹینکر آپریٹر غیر قانونی طور پر زمینی پانی پمپ کرتے ہیں یا حکومتی سپلائی لائنز سے پانی چوری کیا جاتا ہے۔
سرکاری تحقیق کے مطابق دہلی واٹر بورڈ کا لگ بھگ آدھا پانی یا تو چوری کر لیا جاتا ہے اور یا پائپ لائنز لیک ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ بورڈ کے پاس کل ایک ہزار 33 ٹینکرز ہیں مگر یہ پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ لہذا شہر میں سینکڑوں  پرائیویٹ ٹینکرز چلائے جا رہے ہیں جن کے سرکاری سطح پر اعدادوشمار بھی موجود نہیں۔

پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

سنگم وہار سے لگ بھگ 30 کلو میٹر دور دہلی کے شمال مغربی علاقے بھلسوا ڈیری میں پانی کی قلت اور بھی شدید ہے۔ یہاں نلکوں کا پانی پینے کے قابل نہیں لہذا مقامی لوگوں کو سرکاری ٹینکر سے پانی لینے کے لیے قطار میں لگنا پڑتا ہے۔ سرکاری ٹینکر یہاں دن میں صرف ایک بار آتا ہے۔

رواں سال مئی کے بعد سے پانی کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

پانی کی وجہ سے لوگوں کی آپس میں لڑائیاں ہوتی ہیں۔ گزشتہ برس دہلی میں ایسی ہی لڑائیوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔  
بھلسوا ڈیری کے ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رواں سال مئی کے بعد سے پانی کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں میں اضافہ ہوا ہے ان کے پاس آنے والی شکایات میں سے تقریباً 50 فیصد شکایات لڑائی جھگڑے ہی ہوتی ہیں۔
اہلکار کے مطابق کچھ پرائیویٹ آپریٹرز نے اپنے ٹینکرز کے پانی کے معیار پر سوال اٹھنے کے بعد بوتل واٹر بیچنا شروع کر دیا ہے۔
لوگوں کی تعلیم ور صحت پر کام کرنے والی ایک مقامی سماجی تنظیم کے صدر کملیش بھارتی کہتے ہیں کہ گندا پانی پینے کی وجہ سے بھلسوا کے علاقے میں رہنے والے لگ بھگ دو لاکھ افراد جگر کی بیماریوں مثلاً یرقان اور ہیپاٹائٹس کے خطرات سے دوچار ہیں۔
بھلسوا کے قریب فضلہ تلف کرنے کے لیے مختص جگہ کی وجہ سے اس علاقے کا زمینی پانی آلودہ ہوگیا ہے۔
ایک برطانوی سماجی تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے مطابق انڈیا میں لگ بھگ 16 کروڑ سے زائد لوگ (آبادی کا 12 فیصد) صاف پانی سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

شیئر: