Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مس کنڈکٹ ہو بھی تو جسٹس فائز عیسٰی کے خاندان کا ہو سکتا ہے، سابق چیف جسٹس

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس نہیں بنتا۔
اردو نیوز کو ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے طویل عرصے تک چیف جسٹس رہنے والے جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار محمد چودھری نے بتایا کہ انہوں نے بطور سابق چیف جسٹس اور قانون کے طالب علم سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک ’پیپر‘ بھی بھیجا ہے جس میں انہوں نے تفصیلی طور پر قانونی نکتہ نظر بیان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا مس کنڈکٹ بنتا ہی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جن پراپرٹیز کی بات کی جا رہی ہے یا جو پراپرٹیز کہا جاتا ہے کہ ان کی ہو سکتی ہیں اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی مس کنڈکٹ ہے تو وہ ان کے خاندان کے کسی فرد کا ہو سکتا ہے‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس فائز عیسٰی پاکستان کے محسنوں کے خاندان سے ہیں جن کو وہ خصوصی درخواست کر کے عدلیہ میں لائے تھے۔
افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وہ جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل  میں زیر سماعت ریفرنس کے میرٹس پر بات نہیں کریں گے مگر بظاہر یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں اس کا بیک گرؤانڈ شاید بدنیتی پر مبنی ہے۔ قاضی فائز عیسٰی صاحب کو ان کے زمانہ طالب علمی سے جانتا ہوں ان کے والد قاضی عیسٰی صاحب پاکستان بنانے والوں میں شامل تھے اور قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے۔‘
سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسٰی عدلیہ میں آنے سے پہلے کراچی میں انتہائی کامیاب پریکٹس کر رہے تھے اور ان کی فرم کو پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے پر ایوارڈ بھی ملا تھا۔ پھر پی سی او ججوں کے خلاف 31 جولائی 2009 کے ایک فیصلے کے نتیجے میں بلوچستان ہائی کورٹ خالی ہوگئی تو ’بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ میں نے جسٹس فائز عیسی سے عدلیہ میں آنے کی خصوصی درخواست کی تھی۔‘
افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ ’میں نے خود ان سے درخواست کی تھی اور وہ مان گئے۔ ان کو ہم نے چیف جسٹس لگایا اور اس کی قانون میں گنجائش موجود ہے۔ پانچ سال تک جسٹس قاضی فائز بلوچستان کے چیف جسٹس رہے۔‘
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے ریٹائر ہونے پر جسٹس قاضی فائز سپریم کورٹ میں آ گئے۔ ’ان کی دیانتداری اور کردار کے بارے میں آپ کو معمولی سی بھی شکایت نہیں ملے گی۔‘

آئین اور قانون کہتے ہیں کہ احتساب سب کا ہو مگر ایسا نہیں ہو رہا، سابق چیف جسٹس، تصویر: اردو نیوز

افتخار محمد چوہدری کے مطابق جسٹس فائز عیسٰی کی فیض آباد دھرنے کے حوالے سے فیصلے کی ٹون لوگوں کو پسند نہیں آئی اس لیے ان کے خلاف بیک گرؤانڈ میں ڈھونڈ ڈھانڈ کر چیزیں لائی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ ’وہ فیصلہ شاید لوگوں کی نظر میں، کافی لوگوں کی نظر میں جس میں ہماری ایجنسیز بھی شامل ہیں ان کو پسند اس لیے نہیں آیا کہ اس فیصلے کی جو ٹون ہے وہ شاید یہ کہتے ہیں کہ ہمیں سوٹ نہیں کرتی۔‘
جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ریفرنس کے حوالے سے وکلا کی تحریک ان کی تاریخی جدوجہد کا تسلسل ہے اور وکلا اس بار بھی عدلیہ بحالی تحریک کی طرح کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کا یہ بیان قانونی اور آئینی اعتبار سے درست نہیں ہے کہ پہلے 35 سال حکومت میں رہنے والوں کا احتساب کیا جائے اور موجودہ حکومت کا بعد میں کیا جائے۔
’قانون اور آئین کہتے ہیں کہ سب کا احتساب ہو۔ اگر پہلے والے مجرم تھے ان کو پہلے پکڑیں اور اب والوں کو بعد میں پکڑیں گے تو ایسا نہیں ہے، قانون کہتا ہے سب کو پکڑیں۔‘
سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’ملک میں یکطرفہ احتساب ہو رہا ہے، موجودہ حکومت کے ساتھ کتنے لوگ آگے پیچھے کھڑے ہیں اور صوبوں میں کتنے لوگ ہیں جن کے نام لیے جا رہے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔‘

شیئر: