Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دیکھتے ہیں اس بازی کا سکندر کون ہے؟

فاطمہ جناح ہوں یا مجھ جیسی ایک عام عورت۔۔۔ ہم سب ایک ہیں۔ ہم سب سے کی جانے والی نفرت ایک ہے۔ فوٹو: فیس بک
آج بس سیدھی سادی تیکھی سی بات ہو گی۔ خیر ہمارے پاس تو وقت کے علاوہ کوئی متاع نہیں ہے لیکن امید کرتے ہیں کہ آپ کے پاس زندگی کا کوئی بہتر مصرف ضرور ہو گا۔
آپ کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ صبح سے مسلسل فون سکرین کو تکنے کی وجہ سے ہمارا سر اور آنکھیں یوں بھی بھاری ہیں۔ لہٰذا قوی امکان ہے کہ ہم دونوں کا وقت بچنے کے قریب قریب ہے۔
ہمیں جب اس جریدے کے لیے لکھنے کا کہا گیا تو سب سے پہلا مسئلہ یہی درپیش آیا کہ یہاں تو ڈائریکٹ بات کرنی پڑے گی۔ کوئی ہیر پھیر نہیں چلے گا۔ جو گگلی ہم پہلے کراتے آئے ہیں یہاں اس پر کوئی کمپرومائز نہیں چلے گا۔
خیر ہمارے پاس کھونے کو ہے بھی کیا۔ زیادہ سے زیادہ ٹوئٹر اور کالم پر گالم گلوچ ہو جائے گی۔ نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ہم پر کیچڑ اچھالا جائے گا۔ ہمارے کردار کی دھجیاں اڑائی جائیں گی۔ ہماری تصاویر پر پھبتیاں کسی جائیں گی۔ وہ اکاؤنٹ جو نہ تو اپنا نام استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی شکل، ہمیں لفافہ لینے کا طعنہ دیں گے۔ ہمارے ماں باپ کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ وٹس ایپ گروپوں میں ہمارا نام ازراہ تفنن لیا جائے گا۔ 
بس یہی ہو گا کیونکہ یہی ہوتا آیا ہے۔ جس معاشرے کی اخلاقی برتری پر ہمیں بڑا مان اور غرور ہے اس کی اصل حقیقت یہی ہے۔ 

عورت مریم نواز ہو یا اپنی جائز تنخواہ کا مطالبہ کرنے والی ایک بھٹہ مزدور، بے نظیر بھٹو ہو،ہماری اپنے موقف سے نہ ہٹنے کی ضد ایک ہے: فوٹو اے ایف پی 

شاید ہمارا قصور صرف اختلاف رائے نہیں بلکہ رائے رکھنا ہے۔ ایک عورت ہونے کے باوجود اپنی ذات کا ادراک رکھنا ہے۔ اپنے ارد گرد کے مسائل اور ناانصافیوں پر آواز اٹھانا ہے۔ معاشرے نے عورت کے لیے زباں بندی کے جو معیار مقرر کیے ہوئے ہیں ان سے بغاوت کرنا ہے۔ جہاں چھوٹی بچیوں کو بھی یہ کہا جاتا ہے کہ کوئی کچھ بھی کہے آواز نہیں اٹھانی وہاں عمر کے اس حصے میں بھی صدا بلند کرنا ہے۔ سفید  کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ماننے سے انکار کرنا ہے۔ 
اگر خدا لگتی کہیں تو یہ صرف ہمارا ہی نہیں بلکہ ہر اس عورت کا قصور ہے جو شعور رکھتی ہے۔ جو اپنے ارد گرد مروجہ روایات پر جی حضوری نہیں کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شاید یہی ہمارے معاشرے کا واحد حصہ ہے جہاں پیسے اور عہدے کی بنیاد پر تفریق نہیں۔ آپ کا تعلق جس بھی معاشی طبقے سے ہو یہ ذلت آپ کا مقدر ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں یہ بوچھاڑ مزید تیز ہو جائے کیونکہ وہ لوگ جو یوں تو آپ کو کچھ کہنے سے قاصر ہیں اس صورت حال میں اپنے اندر بھرا تمام زہر انڈیل پائیں گے۔ 

 

موجودہ دور میں اس ضمن کی ایک مثال مریم نواز ہیں جنہوں نے عملی سیاست میں اپنے والد میاں نواز شریف کے خلاف ہونے والے عدالتی فیصلے کے بعد قدم رکھا۔ خیر اس سے پہلے بھی مریم نواز سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا برملا اظہار کرتی آئی ہیں۔
پارٹی کے ورکروں سے بھی رابطے میں رہی ہیں۔ مریم نواز کا تعلق پاکستان کے امیر اور طاقتور ترین خاندانوں میں سے ایک سے ہے، لیکن اس کے باوجود ان پر کی جانے والی تنقید محض ان کی ذات سے وابستہ ہے۔ منڈی بہاؤالدین کا جلسہ ہو یا ان کی گرفتاری، ان سے اختلاف رکھنے والوں کا سب سے سنگین  ہتھیار ان کے کردار پر حملہ ہے۔ 

پاکستان میں اکثر اوقات خواتین کی جانب سے صنفی امتیاز کی شکایت سامنے آتی ہیں: فوٹو اے ایف پی

وقت کا دھارا پیچھے کی طرف موڑیں تو پاکستان اور دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ مخالفین کا برتاؤ بھی کچھ خاص مختلف نہیں تھا۔ ان کی ذات اور کردار پر ہر قسم کے رکیک حملے کیے گئے۔ ہیلی کاپٹروں سے پمفلٹ پھینکے گئے۔ فاطمہ جناح جنہیں ایک زمانے میں مادر ملت کہا گیا انہیں چند ہی سالوں میں غدار قرار دیا گیا کیونکہ ان کا نظریہ حاکم وقت سے متصادم تھا۔ 
عورت مریم نواز ہو یا اپنی جائز تنخواہ کا مطالبہ کرنے والی ایک بھٹہ مزدور، بے نظیر بھٹو ہو یا اپنے لیے تعلیم کا حق مانگنے والی کمسن ملالہ، فاطمہ جناح ہوں یا قلم کے ذریعے  پر اپنی سوچ کا اظہار کرنے والی مجھ جیسی ایک عام عورت۔۔۔ ہم سب ایک ہیں۔ ہم سب سے کی جانے والی نفرت ایک ہے۔ ہمارا زبان بندی پر احتجاج ایک ہے۔ ہماری اپنے موقف سے نہ ہٹنے کی ضد ایک ہے۔ 

خواتین کے حقوق کے لیے آٹھ مارچ کو پاکستان کے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں:فوٹو: اے ایف پی

ہم  سب بری عورتیں بنیادی طور پر ایک ہیں۔ بس چہرے، مہرے، وقت اور حالات مختلف ہیں۔ کسی کا دوپٹہ سفید ہے تو کسی کا گلابی، شادی سے انکار پر کسی کا چہرہ مسخ کر دیا گیا ہے تو کسی کے گالوں کی لالی ابھی بھی قائم ہے۔ کسی کے بالوں میں چاندی کے تار جھلکنے کے در پے ہیں تو کسی کا پراندہ لال ہے۔ کسی کو نور جہاں کے گیت گنگنانا پسند ہے تو کسی کو بارش میں نہانا پسند ہے۔
لیکن سب کی آنکھوں میں چمک ایک ہے۔ سب کے دل میں اپنی آواز مزید بلند کرنے کا جذبہ ایک ہے۔
تم ہمیں دبانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہو۔ ہم اپنی آواز کے زیر و بم سے تمہیں دہلاتی رہیں گی۔ دیکھتے ہیں اس بازی کا سکندر کون ہے۔ یہ دنیا ہماری بھی اتنی ہی ہے جتنی تمہاری، فطرت کی بنیاد سانجھ پر ہے۔ کوئی جانے تو جانے کیسے۔
 

شیئر: