Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایف آئی اے کو تحقیقات کے لیے تین ہفتے کی مہلت

پاکستان کی سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک کے مبینہ ویڈیو سکینڈل میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو تحقیقات مکمل کرنے کے لیے تین ہفتے کی مہلت دی ہے۔
احتساب عدالت کی سابق جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سکینڈل کیس کی  سماعت منگل کو سپریم کورٹ میں ہوئی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کررہا تھا۔ 
سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے ’ہم اندھیرے میں ہاتھ پاوں نہیں مارنا چاہتے نہ ہی اندھیرے میں چھلانگ لگائیں گے۔ شاید بہت سے لوگ چاہتے ہوں کہ ہم ایسا کریں لیکن ہم دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے پریس کانفرنس کی انہوں نے ابھی تک ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ ’یہ انتہائی دلچسپ اور سرپرآئزنگ بات ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سے لوگ اس کیس میں ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے رہے جن میں وزیراعظم اور مولوی سراج الحق بھی شامل ہیں مگر ہم کسی کی ڈیمانڈ پر نہیں چلتے۔
’جس طرح ویڈیو آن ڈیمانڈ ہوتا ہے تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ازخود نوٹس بھی ڈیمانڈ پر ہوتا ہے مگر ایسا نہیں۔ اگر ہم نے نوٹس لینا ہوا تو خود لیں گے کسی کے کہنے پر تو ہرگز نہیں۔‘

جن لوگوں نے پریس کانفرنس کی انہوں نے ابھی تک ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا۔ ’یہ انتہائی دلچسپ اور سرپرآئزنگ بات ہے: چیف جسٹس( فوٹو اے ایف پی)

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں درخواستیں دائر کی گئی ہیں ان کا فیصلہ کریں گے اور جج ارشد ملک کے معاملے کو اس طرح نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا ’بے فکر رہیں، یہ عدلیہ سے متعلق معاملہ ہے اس طرح نہیں جانے دیں گے۔‘
اٹارنی جنرل انور مںصور خان نے عدالت کو بتایا کہ جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو کے معاملے پر چھ مختلف قانونی آپشنز دستیاب ہیں جو اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
چیف جسٹس آصف کھوسہ نے پوچھا کہ کیا جج نے شکایت کی ہے کہ ویڈیو اور پریس کانفرنس کے ذریعے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ درج کیے گئے مقدمے میں شہرت کو نقصان پہنچانے کی دفعہ بھی شامل کی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے بعد کیا پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو تحقیقاتی اداروں نے حاصل کی؟۔ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس ویڈیو کو بھی حاصل کیا جائے۔ 
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے ن لیگ کی جانب سے پریس کانفرنس میں دکھائی گئی جج ارشد ملک کی ویڈیو برآمد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
چیف جسٹس نے جج ارشد ملک کی جانب سے ایف آئی اے کو درج کی گئی شکایت میں ان کی نواز شریف سے ملاقات کی تاریخ کا معاملہ سامنے لاتے ہوئے پوچھا کہ اس میں بظاہر ابہام ہے۔ جج نے لکھا ہے کہ ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ ہائیکورٹ میں اپیل کے لیے نواز شریف کے وکلا کی قانونی مدد کی جائے جبکہ اپیل تو بہت پہلے دائر ہو چکی تھی۔  اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یہ جج ارشد ملک کا مؤقف ہے تفتیش ہوگی تو پتہ چلے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے 26 مارچ کو طبی بنیادوں پر ضمانت دی اور چھ اپریل کو جج ارشد ملک نے ان سے ملاقات کی۔

جج ارشد ملک نے مریم نواز کی جانب سے دکھائی گئی ویڈیوز کو جعلی قرار دیا تھا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس کیس میں ایف آئی اے سے رجوع کر لیا گیا۔ جج ارشد ملک خود سے بھی پریس کانفرنس میں ویڈیو دکھانے والوں کے خلاف کارروائی شروع کر سکتے تھے مگر ان کو تبدیل کر دیا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ تبادلہ درست ہے۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ جج کے تبادلے کے معاملے کو نہیں دیکھے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانونی سوال پھر بھی موجود رہے گا۔ 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے میں توہین عدالت کا قانون بھی لاگو کیا جا سکتا ہے اور نیب قانون کے سیکشن سولہ کے تحت بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کارروائی جج خود یا چیئرمین نیب بھی شروع کر سکتا ہے مگر اس کا الگ سے عدالت میں ٹرائل ہوتا ہے جس کے لیے طریقہ کار موجود ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس معاملے میں پیمرا کا قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ پریس کانفرنس دکھا کر الیکٹرانک میڈیا نے اپنے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا اطلاق تو ٹی وی چینلز پر ہوگا اور پریس کانفرنس تو پورے ملکی میڈیا نے نشر کی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون اور عدالت کا مقصد یہ ہے کہ نتیجہ اخذ کر کے فیصلہ دیا جائے اورا س کے لیے صرف شکایت کنندہ یا کسی ایک فریق کو نہیں دیکھا جاتا، سب کو سنا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی قانونی رائے میں یہ آرٹیکل 184 تین کے تحت عوامی مفاد کا معاملہ نہیں بنتا جس کے لیے درخواستیں دائر کی گئی ہیں تاہم عدالت جوڈیشل کمیشن تشکیل دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہے کہ حکومت خود سے بھی انکوائری کمیشن مقرر کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان چھ آپشنز کے علاوہ بھی ہمارے پاس آپشن ہے کہ درخواستیں مسترد کر دیں اور یہ بھی آپشن ہے کہ خود انکوائری کرا لیں۔

 

اٹارنی جنرل نے کہا کہ بدقسمتی سے اس معاملے پر میڈیا میں گفتگو ہو رہی ہے جس سے ہائیکورٹ میں اپیلوں کی سماعت متاثر ہو سکتی ہے۔ ’سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ نہ کرے کیونکہ کسی بھی آبزرویشن سے ہائیکورٹ متاثر ہوگی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا، ایف آئی اے، پولیس یا جوڈیشل کمیشن صرف مواد اکھٹا کر سکتے ہیں جو ہائیکورٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’سزا یافتہ شخص کی سزا کے خاتمے کا فیصلہ صرف ہائیکورٹ اپیل کو سنتے ہوئے ہی کر سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جس جج کی مبینہ ویڈیو ہے اس نے ایک فیصلہ بریت کا دیا اور دوسرے ریفرنس میں سزا سنائی۔ ’اگر ہائیکورٹ اپیل سنتے ہوئے کسی مرحلے پر سمجھے گی تو ری ٹرائل یا شواہد کے دوبارہ جائزے کا حکم دے سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم اس معاملے میں مداخلت کرتے ہیں تو ہیڈلائن بنانے کے علاوہ کیا کریں گے۔ سزا یافتہ شخص کی سزا پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس کا فیصلہ ہائیکورٹ نے کرنا ہے۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ایف آئی اے کی انکوائری کب مکمل ہوگی؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں دو سے تین ہفتے لگ سکتے ہیں۔
عدالت نے مقدمے کی سماعت تین ہفتے کے لیے ملتوی کر دی۔

شیئر: