Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ن لیگ ویڈیو شواہد لے کر عدالت کیوں نہیں جا رہی؟

سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ مریم نواز نے میڈیا پرکیس کےسیاسی پہلو اجاگر کرنے کو ترجیح دی۔
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو  میڈیا پر جاری کیے جانے کے کئی روز بعد بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ مبینہ شواہد کی بنا پر یہ معاملہ عدالت میں کیوں نہیں لے گئیں۔
مریم نواز نے 6 جولائی کو لاہور میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مبینہ آڈیو اور ویڈیو جاری کی اور دعویٰ کیا کہ احتساب عدالت کے جج نے دباؤ اور بلیک میلنگ میں آ کر نواز شریف کے خلاف ’العزیزیہ کیس‘ کا فیصلہ دیا۔
مریم نواز کے اس دعوے پر کئی ماہرین نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر اُن کے پاس اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد موجود ہیں تو پھر انہوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکٹھانے کے بجائے معاملہ میڈیا میں لے جانے کو کیوں ترجیح دی؟
اردو نیوز نے اس سوال کے جواب کے لیے سیاسی و قانونی ماہرین سے رابطہ کیا اور اس معاملے پر ان کا موقف جاننے کی کوشش کی۔
سینیئر صحافی اور مدیر عارف نظامی نے کہا کہ ”میرا خیال ہے کہ شاید مریم نواز کو یہ خدشہ تھا کہ کہیں عدالت اس ویڈیو کو رد نہ کر دے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پروپیگینڈے کی جنگ میں اس بات کی اہمیت زیادہ تھی کہ اسے عدالت کے بجائے پہلے میڈیا میں لے جایا جائے۔‘

سینیئر تجزیہ کار عارف نظامی کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو خدشہ تھا کہ کہیں عدالت ویڈیوز ثبوت کو رد نہ کر دے۔

سینیئر قانون دان بیرسٹر سلمان اکرم راجا نے بھی عارف نظامی کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ انھوں نے اس معاملے کو پہلے میڈیا میں لا کر درست فیصلہ کیا کیونکہ بادی النظر میں ویڈیوز صحیح معلوم ہوتی ہیں۔
 لیکن انھوں نے ویڈیوز کو مصدقہ ثابت کرنے کو ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر مریم نواز عدالت جاتی ہیں تو پہلے انھیں ویڈیوز کو اصلی ثابت کرنا ہو گا اور اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتی ہیں کہ جج پر واقعی دباؤ تھا تو اس صورت میں العزیزیہ کیس ری ٹرائل میں چلا جائے گا۔
”عدالت میں الزامات ثابت نہ ہونے پر خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں‘
سینیئر تجزیہ کار مظہر عباس  نے اردو نیوز کو بتایا کہ منطق کی بات یہ ہی ہے کہ مریم نواز کو پہلے یہ ثبوت عدالت میں جمع کرانا چاہیے تھے لیکن انہوں نے ان ثبوتوں کو پہلے پبلک کرنا مناسب سمجھا۔ میرے رائے میں انہیں خدشہ تھا کہ اگر وہ پہلے عدالت چلی گئیں تو یہ معاملہ دب جائے گا۔
مظہر عباس نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس مزید ویڈیوز بھی ہوں اور ’ان ایڈیٹڈ‘ ہوں اور وہ بعد میں انہیں عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔
مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اس معاملے کا ایک سیاسی پہلو ہے اور دوسرا قانونی، مریم نواز اسے سیاسی مقدمہ کہتی ہیں اور اسی لیے انہوں نے اس کے سیاسی پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ اگر وہ عدالت میں اپنے الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو اس کا نواز شریف کے کیس پر مثبت اثر پڑے گا بصورت دیگر انہیں یہ معلوم ہو گا کہ الزامات عدالت میں ثابت نہ کرنے کے بہت خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔
کیا اعلیٰ عدالیہ کو معاملے کا نوٹس لینا چاہیے؟
عارف نظامی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو اس ویڈیو کے معاملے کا ضرور جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ عدالت نے اس کیس کے لیے اپنا ایک نگران جج بھی مقرر کر رکھا تھا۔ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اگر احتساب عدالت کے جج پر کوئی دباؤ تھا تو انہوں نے مانیٹرنگ جج کو آگاہ کیوں نہ کیا؟ میرے خیال میں عدالت عظمٰی کو اس معاملے کا فورینزک آڈٹ کروانا چاہیے۔
”اعلیٰ عدلیہ کو ازخود نوٹس نہیں لینا چاہیے‘
مریم نواز کے عدالت جانے کے سوال پر سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کو اس معاملے کا ازخود نوٹس نہیں لینا چاہیے کیونکہ یہ 184/3 کا کیس نہیں بنتا، اسلام آباد ہائی کورٹ اس سارے معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
مظہر عباس نے بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے معاملے کا سوموٹو نہ لے کر اچھا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کا فورم موجود ہے اور وہاں یقیناً ججز نے آپس میں مشورہ بھی کیا ہو گا۔

شیئر: