Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وسعت اللہ خان کا کالم: میری فریاد ماری جا رہی ہے

وزیرِاعظم  کا منتوں مرادوں بھرا دورہِ امریکہ اختتام پذیر ہوا۔پوری قوم کو مبارک ہو۔برف پگھلے گی کہ نہیں؟
فی الحال اس سوال کا جواب ڈھونڈھ کر میں اپنا اور آپ کا لطف غارت نہیں کرنا چاہتا ۔ویسے بھی جب دو طرفہ تعلقات ’تم نے ہمارا دل خوش کیا ہم نے تمہارا دل خوش کیا‘،  کی بنیاد پر ہوں تو پھر انجوائے کرنا ہی بنتا ہے۔
ان تین دنوں میں ایک جملہ کوئی ہزار بار دہرایا گیا۔ ’دونوں رہنماؤں کی کیمسٹری بہت ملتی ہے‘ ۔ عرض یہ ہے کہ جب تک کیمسٹری نہ ملے شور آرکسٹرا نہیں بن سکتا۔
اور اس دنیا میں ایسا کون سا باجا ہے جس کی کیمسٹری گلوکار سے الگ ہو۔بے سرا گائیک تو چل جاتا ہے مگر باجا کسی صورت بے سرا ہونا افورڈ نہیں کر سکتا ۔
وزیرِاعظم سے میڈیا کی آزادی پر بھی سوالات ہوئے۔ انہوں نے بجا فرمایا کہ جتنا میڈیا امریکہ یا برطانیہ میں آزاد ہے اتنا ہی ہمارے ہاں بھی آزاد ہے۔ سوائے دو تین چینلوں کے کسی کو شکایت نہیں۔ میڈیا آزاد ہونا چاہیے بے لگام نہیں۔ایسی صورت میں معاملات قوانین کی روشنی میں سلٹا لیے جاتے ہیں۔
پچھلے ادوار میں صحافیوں پر تشدد ہوتا تھا۔ وہ اغوا ہو جاتے تھے۔ آج ایسی صورتِ حال نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم نے جو فرمایا اس سے اتفاق کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن بھی تو نہیں۔
پہلے ہم جیسے ناشکرے سمجھتے تھے کہ یہ بس ہمارا مسئلہ ہے۔ مگر اپنے اردگرد دیکھ کر اطمینان سا ہوتا ہے کہ ہم اکیلے نہیں۔ ٹیکنالوجی بھلے کوئی بھی ہو اس کا اصل ہدف آواز اور سوال کا نشانہ باندھنا ہے۔
جب صرف اخبارات کا زمانہ تھا تو شروع شروع میں حکومتوں کو بھی تمیز نہیں تھی لہٰذا وہ فوری طور پر اخبار کا اشاعتی اجازت نامہ منسوخ کر دیا کرتیں۔
پھر کسی نے حکومتوں کو سجھایا کہ اشاعت پر پابندی کا سارا فائدہ اخبار کو جاتا ہے اور پابندی کے بعد وہ منہ در منہ زیادہ شائع ہوتا چلا جاتا ہے اور مفت میں بدنام سرکار ہوتی ہے۔لہٰذا ایسی ٹکنیک استعمال کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
سنسر کی قینچی اناڑی پن سے مت چلاؤ ۔اخبار کی کاپی سے خبریں اکھاڑ کے خالی جگہ مت جانے دو۔سب دنیا جان جائے گی کہ کوئی اہم خبر سنسر ہوئی ہے۔اگر یہی کرنا ہے تو سنسر شدہ خبر سے خالی ہونے والی جگہ کو کسی بےضرر خبر سے پر کرواؤ۔کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور تمہارا کام بھی ہو جائے گا۔
خبردار! گستاخ اور بدتمیز اخبارات ہرگز ہرگز بند مت کرو بس ان کے اشتہارات روک لو، کاغذ کا کوٹہ کم کردو یا پرنٹنگ پریس کو چھاپنے سے زبانی منع کردو انشاللہ نتائج وہی نکلیں گے جو تم چاہتے ہو اور لوگوں کے سامنے تاویلات پیش کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
اگر اخبار پھر بھی سخت جان نکلے تو اس کا بندوبست بذریعہ عدالت ہو سکتا ہے۔اس کے لیے مبہم قوانین بناؤ جن میں قومی سلامتی، اہم اور حساس اداروں پر بے جا تنقید اور دوست ممالک کی پالیسوں کو ہدف بنانا قابلِ سزا جرم قرار دو۔یوں ہینگ اور پھٹکڑی کے بغیر ہی رنگ چوکھا آ جائے گا۔

پاکستان میں صحافی میڈیا کی آزادی کے حق میں کئی بار احتجاجی مظاہرے کر چکے ہیں: فوٹو اے ایف پی

پھر دور بدلا ۔گلوبل ولیج کا غلغلہ شروع ہوا۔سرکاریت کی جگہ نجکاری کا فیشن چل نکلا۔ظاہر ہے زمانے کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی نجی ہونا تھا سو کرنا پڑا۔اب نجی میڈیا  کیسے کنٹرول کیا جائے؟ لائسنس منسوخ کر دیں تو آزادیِ صحافت پر حملے کی دھونس سے ڈرایا جاتا ہے۔تو پھر کیا کریں ؟
طریقہ بہت آسان ہے۔جن مالکان کا اصل روزگار میڈیا کے بجائے کاروبار اور تجارت ہے وہ تو صرف ایک دھمک کی مار ہیں۔مگر میڈیا کا خون اتنا لذیذ ہے کہ چوہے کے منہ کو بھی لگ جائے تو خود کو شیر سمجھنے لگتا ہے۔
اس لیے کچھ مستقل انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔تو پھر کیوں نہ ان چینلوں میں انسانی روپ میں ایسے پروگرامڈ چپ فٹ کر دیے جائیں جو کھائیں اًن کا اور گائیں ہمارا۔

پاکستان میں حالیہ دنوں صحافی میڈیا میں مبینہ سنسرشپ کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں: تصویر اے ایف پی

یہ تجربہ خاصا کامیاب رہا ہے اور اب الحمدللہ چھید بھلے درجن بھر ہوں مگر بانسری ایک ہے۔ پہلے میڈیا کے لیے نو گو ایریاز کی تعداد چند تھی لیکن جب سے بانسری کے سروں کو ریموٹ کے زریعے بکھیرنے  کی ٹیکنالوجی ہاتھ آ گئی ہے تو بھلے میڈیا کوئی بھی لے نکالے سننے والے کے کانوں تک  راگ درباری کی شکل و صورت میں ہی پہنچے گی۔
مگر ہمیں قطعاً شرمندہ ہونے یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔طبیعت بہت ہی اداس ہو جائے تو  آس پڑوس کو دیکھ کے دل کو تسلی دے لیں۔آپ کے ملک کی سرحد جن چار ممالک سے لگتی ہے ان میں سے تین ممالک میں بانسری بھی سرکار دیتی ہے اور بجانے والا بھی سرکار فراہم کرتی ہے۔میڈیائی  بانسری بظاہر کوئی نجی ادارہ ہی تیار کرے۔ مگر سپیسیفکیشن حکومت ہی فراہم کرتی ہے۔
رہا ہمارا چوتھا ہمسائیہ تو پچھلے تین برس کے دوران وہاں کے نوے فیصد  میڈیائی اداروں نے اپنے ہاتھ سے ہی اپنی مانگ میں ریٹنگ کا سیندور بھر کے گیروا  تلک لگا لیا ہے۔
رھ گئے آزادیِ اظہار کے خبط میں مبتلا چند گنے چنے نشریاتی ادارے  تو ان کی بندھائی  کے  لیے ازقسم ِ سی بی آئی جیسے اداروں یا  سوشل میڈیا کا گالیوں سے بٹا ہوا گلوچی رسہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
وہ  الگ بات کہ خود سی بی آئی کے بارے میں انڈین سپریم کورٹ چھ برس پہلے ہی رولنگ دے چکی ہے کہ یہ پنجرے میں بند وہ طوطا ہے جو صرف مالک کے کہے الفاظ دہراتا رہتا ہے (خدا کا شکر ہے کہ پاکستان میں کسی بھی ادارے پر کم ازکم ایسی کوئی تہمت نہیں لگائی جا سکتی)۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ہر جانب میڈیا کو گل گھوٹو وائرس کا سامنا ہو اور سچائی کے بلاد کار کے لیے متبادل سچ (یعنی سفید جھوٹ) کا نظریہ ایجاد ہو چکا ہو تو پھر یہ لڑائی محض چند ریاستی اداروں اور میڈیا کی کھینچا تانی نہیں رہتی۔اب یہ لڑائی دھشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے مینیو کا حصہ ہے۔اور اس راہ میں جمہوری و غیر جمہوری ریاستوں کی تمیز تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
وہ شورِ حشر ہے اس کی گلی میں
میری فریاد ماری جا رہی ہے  (جون ایلیا)
 

شیئر: