Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 افغانستان میں تشدد کے واقعات کیوں بڑھ گئے؟

دو امریکی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق، کابل حملے میں مرنیوالے20ہوگئے ۔
افغانستان میں نیٹو ترجمان نے پیر کوایک کارروائی کے دورران 2 امریکی فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ کابل حملے میں مرنیوالوں کی تعداد20 ہوگئی۔
 اے ایف پی کے مطابق افغانستان میں امریکی زیر قیادت نیٹو مشن کے ترجمان نے بیان میں اس کی تفصیل نہیں بتائی ۔ مرنے والے امریکی فوجیوں کے نام ان کے رشتے داروں کو مطلع کئے جانے کے بعد جاری ہونگے ۔
 رواں ماہ افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد3ہوگئی جبکہ رواں سال اب تک11 امریکی اہلکار ہلاک ہو چکے۔افغانستان میں اس وقت14ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔
 افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت ایسے وقت ہو ئی ہے جب واشنگٹن طویل جنگ سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے ۔امریکہ اور طالبان کے درمیا ن مذاکرات کے باجوو افغانستان میں تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
 دریں اثناءافغانستان میں نائب صدر کے عہدے کے لیے امیدوار امراللہ صالح کے سیاسی دفتر پر اتوار کو ہونے والے حملے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر20 ہو گئی ۔
حملہ آوروں کا ہدف امراللہ صالح تھے، جنہیں سیکیورٹی دستوں نے افغانستان گرین ٹرینڈ کے مرکزی دفتر سے بحفاظت نکال لیا تھا۔امر اللہ صالح افغانستان کے آئندہ صدارتی انتخاب میں صدر اشرف غنی کے ساتھ نائب صدر کے لئے امیدوار ہیں۔
و اضح رہے کہ اتوار کو صدارتی انتخاب کی مہم کے پہلے دن کابل میں نائب صدر کے امیدوار کے پارٹی دفتر پر دھماکہ ہوا ۔اس کے فوری بعد کئی مسلح افراد عمارت میں داخل ہوگئے اور وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنا لیا۔فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور مارے گئے۔
 فوری طور پر کسی نے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ طالبان اور داعش دارالحکومت کابل میں متحرک ہیں ماضی میں حملے کرتے رہے ہیں۔
اس سے قبل مشرقی صوبے غزنی میں پولیس اسٹیشن پر طالبان کے حملے میں4 پولیس افسر ہلاک ہوئے۔ اے پی کے مطابق صوبائی پولیس کے ترجمان نے حملے کی تصدیق کی ہے۔
رائٹر کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’ صدر ڈونلڈ ٹرمپ2020کے صدارتی الیکشن سے پہلے افغانستان سے امریکی فورسز کی تعداد میں کمی چاہتے ہیں‘۔
قبل ازیں امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ کی تھی کہ ’امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتہ طے پا جانے کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات ہوں گے‘۔

یاد رہے کہ ا فغان وزیر برائے سلامتی امور عبدالسلام رحیمی نے دعوی کیا تھاکہ ’ہم براہ راست مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں۔ حکومت کی نمائندگی 15 رکنی وفد کرے گا‘۔
 ’ تمام فریقوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں امید ہے کہ پہلی ملاقات آئندہ دو ہفتوں کے دوران کسی یورپی ملک میں ہو گی‘۔
 افغان وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کہاں ہونگے ۔
 سفارتی ذرائع نے اے ایف پی بتایا تھاکہ بات چیت7اگست کو ناورے میں طے ہے۔ 
 دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے ردعمل میں افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی تردید کی تھی۔طالبان نے افغان وزیر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہاتھا کہ افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اسی وقت ہو سکتے ہیں جب امریکہ کے ساتھ فوجی انخلاءکا معاہدہ طے پا جائے۔ انٹرا افغان مذاکرات ا سی وقت شروع ہو سکتے ہیں جب غیرملکی فورسز کے انخلا کا اعلان کیا جائے۔
 دورہ امریکہ میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے واشنگٹن کی مدد کر رہا ہے۔

شیئر: