Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب مارنے والے مرنے والوں سے پہلے مر گئے

’تو لگی پھر شرط کہ کون زیادہ دیر تک زندہ رہتا ہے‘ اس جملے نے ان سب کو متوجہ کیا جو آگ برساتے سورج تلے سمندری لہروں کے رحم و کرم پر تھے، کوئی لکڑی کے کسی تختے پر پڑا ہانپ رہا تھا تو کوئی خالی گیلن کا سہارا لیے ہوا تھا، کوئی تیر رہا تھا، تو کوئی ناامید ہوتے ہوئے ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ رہا تھا۔
سب کے جسم تیل سے اٹے تھے۔ کوئی گڑگڑا کر دعا مانگ رہا تھا۔ کوئی چھوٹی ہنگامی کشتی کے ٹکڑے سنبھالے ہوئے تھا۔ چند نے لائف جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ناامیدی پر پھیلا رہی تھی،  کہ ان الفاظ نے ان کو اچھا موقع دے دیا۔
ان میں سے کچھ نے کہا ’لگ گئی‘ مقابلے کی اس فضا نے ان میں نیا حوصلہ پیدا کیا اور انہیں اس سوال کا جواب بھی مل گیا جو تھوڑی دیر قبل سب ہی اپنے آپ سے پوچھ رہے تھے کہ ’میں گھر جا سکوں گا یا نہیں؟‘
ان کی آنکھوں میں بھی پانی تھا اور وہ خود بھی پانی میں تھے لیکن تھے بہت پیاسے، کیونکہ پانی نمکیات اور تیل سے بھرا ہوا تھا، جس نے بھی پیا الٹیاں کرتا مرا۔

انڈیاناپولس ایٹمی مواد لے کر مرکزی بیڑے کی طرف گیا وہی مواد ہیروشیما، ناگاساکی پر گرایا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

دفعتاً انہیں پانی میں دور سے کوئی چیز حرکت کرتے دکھائی دی، جوں جوں وہ قریب آتی گئی ان کے ہوش اڑتے گئے کیونکہ وہ ایک بڑی شارک تھی، اس نے آتے ہی ایک کو دبوچا اور غائب ہو گئی، تھوڑی دیر میں جگہ جگہ دوسری شارکس کے پر دکھائی دینے لگے اور بچی کھچی امید بھی دم توڑنے لگی۔
یہ آپ بیتی ہے ان تین سو فوجیوں کی جو 74 سال قبل آج ہی کے روز 1945 میں تباہ ہونے والے انڈیاناپولس جنگی بحری جہاز کے بارہ سو سواروں میں سے زندہ بچ پائے تھے، بشمول جہاز کے کپتان چارلس بی کے۔ اور ان سب کی کہانیوں کو قلمبند کرتے ہوئے مصنف ڈاؤگ سٹینٹن نے اپنی کتاب ’اِن ہارمز وے‘میں منظر کشی کی ہے ان ہولناکیوں کی جو ان سینکڑوں فوجیوں کو بیچ سمندر پیش آئیں۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران انڈیاناپولس نامی امریکی بحری جہاز ایٹمی مواد لے کر مرکزی بیڑے کی طرف گیا وہی مواد بعدازاں ’لٹل بوائے‘ اور ’فیٹ بوائے‘ نامی بموں کی مدد سے ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرایا گیا۔ واپسی پر اس کو جاپانی آبدوز نے نشانہ بنایا۔ وہ انتہائی وسیع و عریض جہاز تھا جس میں عملے کے ارکان اور میرینز سمیت کُل بارہ سو افراد سوار تھے۔
یکے بعد دیگرے دو میزائلوں کا نشانہ بننے کے بعد اس دیوہیکل جہاز کو ڈوبنے میں صرف بارہ منٹ لگے۔
یہ رات کا وقت تھا، تقریباً تین سو افراد جہاز کے ساتھ ہی ڈوب گئے، اس میں تیل کی بہت بڑی مقدار موجود تھی جو سمندر میں بہا اور بچ جانے والے بھی اس میں لتھڑ گئے، پھر چشم فلک نے سمندر میں آگ لگتی بھی دیکھی۔ ان دنوں بحری جہاز کا زیادہ حصہ لکڑی پر مشتمل ہوتا تھا، اس کے ٹکڑے ادھر اُدھر پھیل گئے، ان میں کچھ چھوٹی ہنگامی کشتیاں بھی تھیں جو جہاز کے ساتھ باہر کی طرف بندھی ہوئی تھیں۔
فوری طور پر بچ جانے والے نو سو میں سے چھ سو لہروں اور شارکس کا شکار ہوئے اور تین سو کے قریب اس حال تک پہنچے جس کی منظر کشی ابتدائی سطور میں کی گئی ہے۔

 2017 میں سمندر سے ملنے والا انڈیاناپولس جہاز کا ملبہ۔ فوٹو: اے ایف پی

شارکس کے حملے کے بعد سب نے اندھادھند تیرنا شروع کر دیا، تختوں پر موجود افراد نے ہاتھوں کو چپّو بنایا اور چھوٹی کشتیوں والوں نے لکڑی کے ٹکڑوں کو، بڑی ٹولی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹ گئی اس دوران بھی شارکس آتی رہیں اور بھوک مٹاتی رہیں لیکن وہ تیرتے رہے یہ مہم گھنٹوں چلی حتیٰ کہ اندھیرا پھیلنے لگا، شام ہو رہی تھی، سمندر پرسکون تھا اور شارکس بھی غائب ہو گئیں۔
اس دوران کسی کی آنکھ لگی بھی تو کبھی خود کو شارک کے جبڑوں میں دیکھا اور کبھی پیاروں سے ملتے ہوئے۔ ابھرتا سورج ایک اور گرم دن کا پیغام لایا، دھوپ نکلتے ہی پھر سے شارکس نظر آنے لگیں۔ یہ دن بھی ہانپتے، کانپتے، دعائیں مانگتے گزر گیا پھر رات اور پھر اگلا دن، یہ سلسلہ مزید اڑتالیس گھنٹے چلا، چھٹے روز انہیں فضا میں نیچی پرواز کرتا جہاز دکھائی دیا، ان میں چیخنے کی سکت نہیں تھی، صرف ہاتھ ہلا سکتے تھے خوش قسمتی سے پائلٹ کی نظر پڑ گئی اور کچھ دیر میں امدادی ٹیم ان تک پہنچ گئی۔
اس واقعے پر 2016 میں ہالی وڈ میں ’یو ایس ایس انڈیاناپولس (مین آف کَریج)‘ کے نام سے فلم بھی بنائی گئی۔
امریکی فوجی تاریخ میں اس کو بدترین سانحے کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

کیپٹن چارلس بی کے خلاف کارروائی

تحقیقات میں چارلس بی کے بطور کیپٹن کردار کی بھی جانچ ہوئی اور انہیں جہاز کو زگ زیگ نہ چلانے کا ذمہ قرار دیا گیا جس کی وجہ سے وہ آسانی سے نشانہ بنا اسی طرح انہیں بروقت میرینز کو جہاز چھوڑنے کا حکم نہ دینے کا بھی ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کورٹ مارشل کیا گیا، انہوں نے 1969 میں خودکشی کر لی تھی۔

انڈیاناپولس کی تلاش

انڈیاناپولس کے بچ جانے والے میرینز ابھی ہسپتالوں میں تھے کہ چھ اور نو اگست 1945 کو ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جس کے کچھ ہی دنوں بعد جنگ ختم ہو گئی، تاہم شروع میں اس سانحے کو چھپانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انڈیاناپولس کے ملبے کو تلاش کیے جانے کی بحث شروع ہوئی لیکن اس لحاظ سے کسی خاص مقام کا درست تعین نہ ہونے کی وجہ سے یہ بحث بحث ہی رہی، تاہم اگلے چند سال میں اس ضمن میں تلاش کا کام شروع ہوا لیکن کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔
بیچ میں اس سلسلے کو ترک بھی کیا گیا لیکن بہرحال اس کا ملبہ تلاش کرنا ضروری تھا اس لیے کسی نہ کسی سطح پر کوشش ہوتی رہتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی ترقی کی بدولت اس کی تلاش کے امکانات پیدا ہوئے اور جدید آلات کی مدد سے درست مقام کی نشاندہی کا کام جاری رہا۔
بالآخر72 سال بعد 18  اگست 2017 کو سمندر کی تہہ میں 18 ہزار فٹ کی گہرائی سے انڈیاناپولس کو تلاش کر لیا گیا۔ اسے مائیکروسوفٹ کمپنی سے تعلق رکھنے والے محقق پال ایلن کے تحقیقی جہاز نے تلاش کیا۔

 2017 میں سمندر سے ملنے والا انڈیاناپولس جہاز کا ملبہ۔ فوٹو: اے ایف پی

اس میں دوسرے آہنی سامان کے علاوہ میرینز کے بیگوں کے چیتھڑے اور ان میں موجود بعض چیزیں بھی ملیں جیسے شیونگ کٹس، ناخن تراش، دھاتی بیجز اور میڈلز وغیرہ۔ امریکی انتظامیہ نے ملبہ نکال لیا اور اب اس پر تحقیق کا کام جاری ہے۔
اس حوالے سے پال ایلن نے اپنی ویب سائٹ پر پیغام میں کہا تھا کہ ’اس جہاز کا ملنا امریکی فوج کے بہادر فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو خراج عقیدت پیش کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ہم ان فوجیوں کے مقروض ہیں جنہوں نے اپنے عزم سے خطرناک ترین حالات کا مقابلہ کیا‘۔
اس سانحے کو امریکی انتظامیہ کی جانب سے خفیہ رکھنے کی بھی کوشش کی گئی اور بہت دیر بعد کچھ معلومات سامنے آئیں جس پر یہ سوال اٹھایا جاتا رہا کہ جہاز کو ڈوبنے میں بارہ منٹ لگے اور اس وقت زیادہ تر لوگ زندہ تھے اس لیے کوئی امدادی پیغام کیوں نہیں آ سکا اور امدادی ٹیمیں ان تک بروقت کیوں نہ پہنچ سکیں، اس پر بحث طویل ہونے پر یہ معلوم ہوا کہ یہ جہاز انتہائی خفیہ مشن پر تھا۔

 2017 میں سمندر سے ملنے والا انڈیاناپولس جہاز کا ملبہ۔ فوٹو: اے ایف پی

بچ جانے والوں  کی سالانہ ملاقات

انڈیاناپولس کے سانحے میں بچ جانے والے مہینوں ہسپتالوں میں رہے، ان میں سے بھی کچھ مر گئے۔ بعدازاں یہ فوجی ہر تیس جولائی کو ایک جگہ اکٹھے ہوتے، تقریب ہوتی اور یادداشتیں شیئر کی جاتیں۔ میڈیا میں ان کو بھرپور پذیرائی دی جاتی رہی، قومی ہیروز قرار دیے گئے۔
اس وقت سانحے میں بچ جانے والوں میں صرف بارہ زندہ ہیں۔ ان کی سالانہ گیدرنگ کا سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ آج بھی امریکا میں ایک ایسی ہی سرگرمی ہونے جا رہی ہے جس میں بارہ میں سے سات میرینز شرکت کریں گے جن میں اڈگرہیرل، تھیلن اور ہیرالڈ برے سمیت دوسرے شامل ہیں۔ انڈیانا پولس کے سانحے کے وقت یہ تمام لوگ سترہ سے انیس سال کے تھے۔

شیئر: