Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ انتخابات، پاکستانی کا کرکٹ میچ

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں چئیرمین کے خلاف اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک کا نتیجہ بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے میچ جیسا ہی رہا ہے۔
سینیٹ کے اجلاس سے قبل جب اپوزیشن یہ دعوی کرتی تھی تو وہ حقیقی اور قابل یقین لگتا تھا کہ ان کے پاس چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے ارکان کی مطلوبہ تعداد پوری ہے لیکن ساتھ ہی حکومت کا یہ دعوی کہ انہیں کوئی پریشانی نہیں محض سیاسی بیان اور خود کو تسلی دینا لگتا تھا۔
سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کا مورال ہائی تھا تو حکومتی بنچ بھی کچھ زیادہ پریشان دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ قواعد کے تحت جب پریزائیڈنگ افسر نے راجہ ظفر الحق کو قرارداد کے حق میں دلائل دینے کا کہا تو انہوں نے کہا ’وہ نہیں چاہتے کہ ایک دوسرے کے خلاف تقریریں کرکے ایوان کا ماحول خراب کریں۔‘
قائد ایوان شبلی فراز نے بھی راجہ ظفرالحق کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ’ووٹنگ کرائیں ہم مقابلے کے لیے تیار ہیں۔‘

بلوچ سینیٹرز نے ’ایک سنجرانی سب پر بھاری‘ کا نعرہ لگا دیا۔

اپوزیشن کے اعتماد کا یہ عالم تھا کہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف سمیت کئی ارکان اسمبلی اور پارٹی رہنما مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے۔
ووٹنگ سے قبل کا ماحول بھی بڑا اچھا تھا اور تمام ارکان باہمی بات چیت میں مگن تھے۔ چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی، راجہ ظفرالحق اور مشاہد اللہ خان باہمی گپ شپ میں مصروف رہے۔
اپوزیشن بہت زیادہ پر اعتماد دکھائی دے رہی تھی اور اس اعتماد میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوگیا جب قرارداد پیش کرنے سے متعلق تحریک کے حق میں 64 ارکان کھڑے ہوئے اور حکمران اتحاد کے علاوہ ہر ایک کو یقین ہوگیا کہ صادق سنجرانی کے بطور چئیرمین یہ آخری لمحات ہیں۔
پریس گیلری میں موجود صحافیوں کی اکثریت بھی اب ووٹنگ کو محض رسمی کارروائی ہی سمجھنے لگ گئی تھی۔
جب چئیرمین سینیٹ ووٹ ڈالنے آئے تو حکمران اتحاد کے سینیٹرز نے کھڑے ہوکر کافی دیر تک ڈیسک بجائے لیکن چئیرمین سینیٹ اپنا ووٹ غلط کاسٹ کر بیٹھے اور سینیٹ عملے سے دوبارہ بیلٹ پیپر کی درخواست کی۔ اس وقت بھی مشاہداللہ خان نے کہا ’صادق سنجرانی نے اپنے اوپر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔‘
ووٹنگ کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا تو ابتدائی 20 ووٹ گننے تک اپوزیشن کے چہروں کے رنگ بدلنا شروع ہوگئے تھے کیونکہ پہلے 20 ووٹ گننے کے بعد قرار داد کے حق میں 12، مخالفت میں سات اور ایک ووٹ مسترد ہو چکا تھا اور 103 کے ایوان میں یہ بہت قریب کا مارجن تھا۔
اس دوران جب بھی قرارداد کے حق میں ووٹوں کی تعداد آگے بڑھتی تو جاوید عباسی اپنے ساتھی پولنگ ایجنٹ سینیٹر نعمان وزیر کی کمر پر ہاتھ پھیرتے اور تسلی دیتے اور نعمان وزیر بس ہلکا سا مسکرا دیتے۔
گنتی کا عمل جوں جوں آگے بڑھتا گیا اور مسترد ووٹوں کی تعداد غیر معمولی دکھائی دینے لگی تو اپوزیشن کی ہوائیاں بھی اڑتی گئیں اور گنتی مکمل ہوتے ہی حکومتی بنچوں پر جشن منایا جانے لگا جسے پریذائیڈنگ آفسر نے روک دیا۔
عدم اعتماد کی تحریک کے لیے مطلوبہ 53 ووٹ پورے نہ ہونے کا یقین ہو جانے پر شبلی فراز باہر دوڑے اور صادق سنجرانی کو لابی سے بلا کر لائے۔ ان کی آمد پر ’ایک زرداری سب سے بھاری‘ کے نعرے میں ترمیم کرتے ہوئے بلوچ سینیٹرز نے ’ایک سنجرانی سب پر بھاری‘ کا نعرہ لگا دیا۔
اس جشن کے دوران اپوزیشن ارکان ششدر  تھے اور تقریباً سبہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے نظر آئے۔
ڈپٹی چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو اپوزیشن نے حکمت عملی کے تحت اس میں حصہ نہیں لیا ورنہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اگر چئیرمین کی طرح ووٹنگ ہوئی اور اپوزیشن ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیتی تو شاید ان کو لینے کے دینے پڑ جاتے اور چئیرمین کے بجائے ڈپٹی چئیرمین کیخلاف عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی۔
اجلاس کے بعد جب چئیرمین سینیٹ اپنے چیمبر میں واپس پہنچے تو مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے عدم اعتماد کی کامیابی کی خوشی کے لیے ایڈوانس میں منگوائی گئی مٹھائی جو راجہ ظفرالحق کے چیمبر میں رکھی گئی تھی انھوں نے چئیرمین سینیٹ کو بھجوا دی۔
توقع کے برعکس نتیجہ آنے کے بعد بیشتر اپوزیشن ارکان غائب ہوگئے تاہم اہم رہنما راجہ ظفرالحق کے چیمبر میں جمع ہوئے اور پھر شہباز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں چلے گئے۔

شیئر: