Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام آباد کو پلاسٹک فری بنانا کتنا آسان ہوگا؟

ایک اعدادو شمار کے مطابق پاکستانی عوام 55 بلین پلاسٹک ہر سال استعمال کرتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ہندو کش کے دریاؤں سے لے کر اسلام آباد کی کچی آبادیوں تک پلاسٹک ہی پلاسٹک نظر آتا ہے۔
پلاسٹک، پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان پلاسٹک مینیوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستانی عوام ہر سال 55 بلین کا پلاسٹک استعمال کرتی ہے۔
 ساحلوں پر پھیلا ہوئے پلاسٹک سے کم ہوتی بحری حیات کی تصاویر کے منظر عام پر آنے سے کافی ممالک کو دھچکا لگا ہے، جس کے بعد سے وہ ماحول کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 120 ممالک نے روز مرہ کے استعمال کی چند پلاسٹک سے بنی اشیا کے استعمال پر پابندی لگائی ہے۔ پاکستان بھی انہی ممالک میں سے ایک ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ پاکستان میں اس حوالے سے قومی سطح پر کوئی پالیسی نہیں اور ملکی سطح پر لوگوں کو پلاسٹک کے نقصانات کے حوالے سے آگہی کی کوششیں ناکام ہوتی رہی ہیں، جبکہ دیہی علاقوں میں بسنے والے لوگ پلاسٹک کے ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔
 ’ماحول کے (تحفظ) کے لیے لڑا جا رہا ہے؟ ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں۔‘ دکاندار سلمان محمد طاہر نے کہا جو گاہکوں کو پلاسٹک کے لفافے میں سبزیاں ڈال کر دیتے ہیں۔
42 سالہ سلمان طاہر کا تعلق ضلع چترال سے ہے جہاں پلاسٹک کے لفافوں پر پابندی دو سال پہلے 2017 میں لگی تھی۔ چترال، پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال پر پابندی لگانے والا سب سے پہلا ضلع تھا۔

ضلع چترال پلاسٹک لفافوں کے استعمال پر 2017 میں پابندی لگانے والا پہلا ضلع تھا لیکن اب تک عمل درآمد نہ ہو سکا۔ فوٹو اے ایف پی 

چترال کے شہری خیرالزمان عازم نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا، ’مجھے پلاسٹک کے لفافے پسند ہیں۔‘
’مجھے معلوم ہے (لفافے پھینکنا) اچھی بات نہیں، لیکن میرے محلے میں کوڑا دان نہیں پڑے ہوئے۔‘
کوڑے دان میں جانے کے بجائے کچرا سڑک کے کنارے اور پہاڑوں کے دامن میں پڑا رہتا ہے۔ یہ ان ندیوں کو بھی بلاک کرتا ہے، جو دریائے سندھ میں جا کر گرتی ہیں۔
ماحول پر تحقیق کرنے والے ایک جرمن ادارے کے مطابق چین کے ینگسی دریا کے بعد دریائے سندھ دنیا کا دوسرا بڑا پلاسٹک سے آلودہ دریا ہے۔
چترال میں حکام کے مطابق نئی ماحولیاتی آگہی مہم کا آغاز سکولوں میں کیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سی دکانوں پر ماحول دوست لفافے دستیاب نہیں اور قانون کا نفاذ انتہائی کم ہے۔
چترال ٹریڈرز یونین کے چیئرمین شبیر احمد کا کہنا تھا کہ ’ضلعی حکومت مخلص نہیں۔ یہ کبھی مارکیٹ میں جا کر نہیں دیکھتے۔ دکانداروں کو جرمانہ بھی نہیں کرتے۔‘

ماحولیاتی محققین کے مطابق پلاسٹک مکمل طور پر گل سٹر کر ختم نہیں ہوتا بلکہ صرف کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

چترال کی ضلع انتظامیہ کے افسر خرشید عالم محسود نے کہا کہ ’میں تمام پلاسٹک کے لفافے ایک گھنٹے میں ضبط کرسکتا ہوں۔ لیکن اس کا متبادل کیا ہے؟‘ ضلعی افسر کے خیال میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔
کراچی میں بحرہ عرب کے ساحل سمندر پر بھی کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہوتے ہیں۔
 اقوام متحدہ کے مطابق پلاسٹک کے لفافوں سے ہر سال تقریباً دس لاکھ پرندے، ہزاروں کے حساب سے طرح طرح کی بحری حیات اور لاتعداد مچھلیاں مرتی ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق پلاسٹک کا استعمال ہر سال پندرہ فیصد بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں پلاسٹک کو ریسائیکل کرنے کے طریقے محدود ہیں اور کچرے سے نمٹنے میں بہت بد انتظامی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ دارالحکومت اسلام آباد میں بھی کچرا اکثر گلیوں میں جلایا جاتا ہے۔
ماحولیاتی محقق حسن سپرا کا کہنا تھا کہ، ’پلاسٹک گلتا سڑتا نہیں ہے۔ یہ صرف کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے۔‘
’جانور اسے کھاتے ہیں۔ آپ کھاتے ہیں۔ پھر یہ جگر کی خرابی، شوگر اور ہیضہ جیسے مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ کیونکہ (پلاسٹک) سستا اور آسان ہے، لوگ اس (پلاسٹک) کے صحت پر پڑنے والے اثرات نہیں دیکھتے۔‘

چودہ اگست سے اسلام آباد میں پلاسٹک لفافوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگ جائے گی۔ فوٹو اے ایف پی

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر شخص کے معدے میں اوسطاً پانچ گرام کا پلاسٹک ایک ہفتے میں داخل ہوتا ہے، جو تقریباً کریڈٹ کارڈ کے وزن کے برابر ہے۔
سندھ اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے لاہور میں میونسپل حکام کے ساتھ مل کر پلاسٹک لفافوں کے استعمال پر بھی پابندی لگائی ہے، لیکن اس کا نفاذ عمل میں نہیں آسکا۔
وفاقی حکومت کے حالیہ اعلان کے بعد چودہ اگست سے اسلام آباد میں پلاسٹک لفافوں کے استعمال پر پابندی نافذ کر دی جائے گی، اور خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
لیکن پلاسٹک لفافوں سے جڑی انڈسٹری نے بھی اس پابندی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے جن کے خیال میں چار لاکھ ملازمین اس پابندی سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر ہوں گے۔

شیئر: