Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الفاظ کے الٹ پھیر کا دلچسپ مطالعہ

میر تقی میر کو تدبیریں اُلٹی ہو جانے کا غم تھا اور مصحفی کو اس بات کا دکھ کہ : ’الٹی گنگا بہاتے ہیں آنسو‘ ۔۔۔۔۔ غالب کا مسئلہ ان دونوں کے برخلاف تھا :
’ الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا ‘
 ان معتبر شعرا کے اُلٹ پھیر پر تشویش برقرار تھی کہ ایک شاعر نے  یہ کَہہ کر بات ہی اُلٹ دی :
بنے کیونکر کہ ہے سب کار الٹا
ہم الٹے، بات الٹی، یار الٹا
جب سب کچھ ہی اُلٹا ہو تو سیدھے کی تمنا کون کرے۔ مگر کچھ ’دائیانہ کردار‘ کے حامل افراد نے مصرعِ ثانی کے الفاظ۔ ’ ہم، بات اور یار‘۔۔۔۔ کو اُلٹ کر اِن کے بطن سے ۔۔۔۔ ’ مہتاب رائے ‘۔۔۔۔کی پیدائش کا سامان کردیا۔ نہیں سمجھے؟ ان الفاظ کو خود الٹ کر دیکھ لیں۔
الفاظ کے الٹ پھیر کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔ لفظ کبھی ایک زبان سے دوسری زبان میں جاکر اصل معنی سے یکسر الٹ مطلب بیان کرتے ہیں اور کبھی معنی وہی رہتے ہیں مگر صوتی یا لفظی ترتیب بدل جاتی ہے۔
عربی میں گھنگھور گھٹا کو ’ غیم ‘کہتے ہیں۔یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔یہ کالی گھٹائیں جب چھما چھم برستی ہوئی سرزمینِ فارس پہنچیں تو عربی کا ’ غیم ‘ یکسر الٹی ترتیب کے ساتھ فارسی میں ’ میغ ‘ ہوگیا۔۔۔۔پھر  ابر اور کالی گھٹا کے معنوں میں فارسی ’ میغ ‘ اردو کو بھی سیراب کرگیا ۔اسی ’ میغ ‘کو بروکار لاتے ہوئے میر تقی میر کَہہ گئے ہیں: ’ تہِ میغ خورشید پنہاں ہوا ‘۔
یہی ’ میغ ‘ سنسکرت میں ’ میگھ ‘ ہے۔اول: بطور اسم ’مگھ‘ بارش کے دیوتا کا نام ہے ۔۔۔۔ ثانی: خود بادل اور برسات کو ’ میگھ ‘ کہتے ہیں۔ایک بھارتی شاعرہ اندرا ورما کا شعر ہے:
اس کے مضراب سے جب راگ بنیں گی دیپک
میگھ چپکے سے مرے دل پہ برس جائے گا
اب اس ’ میگھ ‘ اور پانی کی رعایت سے بنگلہ دیش کے مشہور دریا ’ میگھنا ‘ کے نام پر غور کریں۔بات اور آسان ہوجائے گی ۔
یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ ’ میغ ‘ عربی زبان  سے سنسکرت میں  آیا ہے یا معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوا ہے۔ چونکہ ہمیں لفظی اُلٹ پھیر سے مطلب ہے لہٰذا آگے بڑھتے ہیں۔
عربی کی رعایت سے اردو میں ایک لفظ ’ طوائف الملوک ‘ رائج ہے۔ لفظ ’ملوک ‘ اور ’طوائف‘ بالترتیب ’ مَلِک ‘ اور’ طائفہ ‘ کی جمع ہے اور ان کے معنی ’ بادشاہ ‘ اور ’ گروہ ‘ کے ہیں۔۔۔۔یوں ’ طوائف الملوک ‘ کا مطلب ہے ’ بادشاہوں کے گروہ ‘۔ اسی سے ترکیب ’ طوائف الملوکی ‘ بنی ہے ۔ یہ لفظ ایسے زمانے کے لیے بولا جاتا ہے جب کسی خاص بادشاہ کا حکم نہ چلے بلکہ کئی بادشاہ اور امرا اپنا اپنا حکم چلاتے ہوں۔
اگر غور کریں تو ترکیب ’ طوائف الملوک ‘ نادرست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ اس کے معنی ’ بادشاہوں کے گروہ ‘ کے ہیں۔ ملک میں بد نظمی ہو تو بادشاہوں پر مشتمل گروہ نہیں بنتے، بلکہ بادشاہی کے دعویداروں کے گرد جتھے اور گروہ بنتے ہیں۔۔۔۔اس تناظر میں درست ترکیب’ ملوک الطوائف ‘ ہے اور اس کا مطلب ہے ’ ٹولوں کے بادشاہ ‘۔ یہ ہم نہیں کہتے بلکہ یہ بات ایک بڑے فاضل لکھ گئے ہیں اور درست لکھ گئے ہیں۔
آج سلطانیِ جمہور کا زمانہ ہے۔خلق خدا موج اُڑا رہی ہے اور’ کٹاکٹ ‘کھا رہی ہے۔ حلال جانوروں کے’اسپیئر پارٹس‘ سے بننے والی اس ڈش کو یہ نام اس کی تیاری کے دوران پیدا ہونے والی آواز کی مناسبت سے دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور پہنچتے پہنچتے ’ کٹاکٹ ‘ کی یہ آواز ’ ٹکا ٹک ‘ میں بدل جاتی ہے۔ یوں یہ ڈش بھی ’ ٹکا ٹک ‘ کہلاتی ہے۔
اردو میں جو ’ کٹ لگنا ‘ ہے وہ  پنجابی میں ’ ٹک لگنا ‘ ہے۔۔۔۔ پھر بات یہیں تمام نہیں ہوئی، اردو کا ’ کیچڑ ‘ لفظی الٹ پھیر کے بعد پنجابی میں ’ چکّڑ ‘ ہے۔
فارسی میں ہونٹ کو ’ لب ‘ کہتے ہیں۔اور اسی رعایت سے یہ اردو میں بھی رائج ہے۔ میر کَہہ گئے ہیں:
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
فارسی ’لَب ‘ کو انگریزی زبان میں ’ لِپ ‘ (lip)  کہتے ہیں۔یعنی لَب کا ’ب ‘حسب موقع ’ پ ‘ سے بدل گیا ہے۔۔۔۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فارسی ’ لَب ‘ پنجابی زبان میں یکسر الٹی ترتیب کے ساتھ ’ بُل ‘ کہلاتا ہے، جس کی جمع ’ بُلیاں ‘ ہے۔ ’ بُلیاں تے ہاسا ‘ کا مطلب ہے ’ ہونٹوں پہ ہنسی ‘۔
لفظی یکسانیت مگر معنوی اختلاف کی ایک مثال لفظ ’ دیو ‘ ہے۔جس کا ذکر اکثر کہانیوں میں آیا ہے۔۔ عتیق الٰہ آبادی کے مطابق:
دیو پری کے قصے سن کر
بھوکے بچے سو لیتے ہیں
فارسی زبان میں ’دیو ‘ ایک منفی کردار ہے جس کے ساتھ خوف اور ظلم و زیادتی کا تصور وابستہ ہے۔ علامہ اقبال کَہہ گئے ہیں:
 ’ دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب ‘۔
مصرع مشکل ہے مگر قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ اقبال نے ’دیو ‘ کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کیا۔۔۔۔۔خیر  یہی ’دیو ‘ بالکل اُلٹے معنوں کے ساتھ سرزمین ہند میں ایک مقدس ہستی کا تصور رکھتا ہے۔ اس دیو کو دیوتا بھی کہتے ہیں۔ ایک پرانی انڈین فلم ’خاندان ‘ کے گانے کے بول ہیں
 ’ تمہی میرے مندر، تمہی میری پوجا، تمہی دیوتا ہو‘۔۔۔۔۔
اس’دیو ‘کی تانیث ’ دیوی ‘ کہلاتی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں جو الفاظ تواتر سے سننے کو ملتے ہیں ان میں لفظ ’ مغوی ۔ راشی اور متوفی ‘ شامل ہیں۔ ان الفاظ پر ترتیب وار بات کریں گے۔
مغوی: اردو ذرائع ابلاغ کی ’ لغت ‘ میں  ’ مغوی ‘ کا مطلب ہے ’ اغوا ہونے والا ‘۔ اردو کے ایک بڑے اخبار نے سرخی لگائی کہ  ’مغوی نوجوان کی رہائی کیلئے 50 لاکھ روپے تاوان طلب‘ ۔ جب کہ حقیقت یہ کہ عربی زبان میں ’ مغوی ‘کے معنی اغوا ہونے والے کہ نہیں بلکہ ’ اغوا کرنے والے ‘ کے ہیں۔یعنی اخباری معنی کے بالکل اُلٹ۔اغوا ہونے والے کے لیے درست لفظ ’ مغویٰ‘ (ی پر کھڑا زبر) ہے۔
راشی : راشی کا تعلق رشوت سے ہے اور رشوت ہمارے قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔اسی لیے دلاور فگار کَہہ گئے ہیں:
’لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا‘۔
خود ساختہ اخباری لغت کی رو سے رشوت لینے والا ’راشی‘ کہلاتا ہیں۔بڑے اخبار ہی نے اطلاع دی ہے کہ : ’راشی افسران کیخلاف ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ‘۔
مگر یہاں بھی گنگا اُلٹی بِہ رہی ہے، کیونکہ ’راشی ‘ کے معنی رشوت لینے والے کے نہیں بلکہ ’  رشوت ‘ دینے والے کے ہیں۔ رشوت لینے والے کو عربی میں ’ مرتشی ‘ کہا جاتا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
الراشی و المرتشی کلا ھما فی النار ۔ یعنی (مفہوم): رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
متوفی : ذرائع ابلاغ کے مطابق فوت ہوجانے والے کو ’ متوفی ‘ کہتے ہیں۔ایک اخبار نے اطلاع دی ہے : ’ متوفی کے 2 دو ست گرفتار ‘ ۔
یہاں بھی معاملہ اُلٹا ہے، اس لیے کہ عربی زبان کے مطابق ’متوفی‘ فوت ہونے یا مرنے والے کو نہیں کہتے، بلکہ مارنے والے کو کہتے ہیں۔ فوت ہونے والے کے لیے لفظ ’ متوفیٰ ‘ (ی پر کھڑا الف)  ہے۔
اس پہلے کہ اتنی اُلٹی اُلٹی باتیں بیان کر کے ہمارا دماغ بھی اُلٹ جائے ہمیں اجازت دیں۔آئندہ نشست میں کچھ مزید اُلٹی باتوں کے ساتھ ملاقات ہوگی۔

شیئر: