Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹیٹ بینک کی نئی ہدایت، بائیومیٹرک تصدیق کے بغیر اکاؤنٹ فعال نہیں ہوسکے گا

سٹیٹ بینک کے فیصلے کے مطابق اب تمام پرانے قواعد ختم کر کے ایک مرکزی فریم ورک متعارف کرایا گیا ہے (فوٹو: اے پی پی)
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینک اکاؤنٹس کھولنے اور صارفین کی تصدیق کے طریقۂ کار میں بڑی اصلاحات کرتے ہوئے ایک نیا جامع نظام ’کنسولیڈیٹڈ کسٹمر آن بورڈنگ فریم ورک‘ متعارف کرایا ہے، جس پر اب عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔
نئے فریم ورک سے مراد سٹیٹ بینک آف پاکستان کا وہ جامع نظام ہے جو بینکوں اور مالیاتی اداروں میں صارف کی شناخت، تصدیق اور اکاؤنٹ کھولنے کے تمام مراحل کو ایک ہی ضابطے کے تحت یکساں بناتا ہے۔
پہلے مختلف اقسام کے اکاؤنٹس جیسے آسان اکاؤنٹ، فری لانسرز اکاؤنٹ، اور نان ریزیڈنٹ پاکستانیوں کے اکاؤنٹس کے لیے الگ الگ قوانین اور سرکلرز موجود تھے۔ ہر فریم ورک کے اپنے اصول، فارمز اور تصدیقی تقاضے تھے، جس سے بینکوں میں فرق اور الجھن پیدا ہوتی تھی۔ 
تاہم سٹیٹ بینک کے فیصلے کے مطابق اب تمام پرانے قواعد ختم کر کے ایک مرکزی فریم ورک متعارف کرایا گیا ہے جو ہر قسم کے صارف کے لیے یکساں اصول فراہم کرے گا۔
اردو نیوز کے پاس موجود مرکزی بینک کے اس فریم ورک کی دستاویزات کے مطابق اب تمام بینک ایک جیسے ضابطوں کے مطابق صارف سے معلومات اور دستاویزات طلب کریں گے۔ 
نادرا، بائیومیٹرک اور دیگر ڈیجیٹل ذرائع سے تصدیق کو لازمی اور یکساں قرار دیا گیا ہے، جبکہ اس فریم ورک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے والے قوانین سے بھی مربوط کر دیا گیا ہے۔
نئے فریم ورک کے تحت بائیومیٹرک تصدیق کا عمل مزید واضح، جامع اور لازمی کر دیا گیا ہے، تاہم اس میں عملی لچک بھی رکھی گئی ہے تاکہ مختلف نوعیت کے صارفین، مثلاً مقامی، غیر ملکی یا فری لانسرز کو سہولت مل سکے۔
بینک اب کسی بھی صارف کا اکاؤنٹ کھولنے سے پہلے نادرا ویریسس، بائیومیٹرک تصدیق یا قابلِ اعتماد ڈیجیٹل ذرائع استعمال کرنے کے پابند ہوں گے۔

ن صارفین کی بائیومیٹرک تصدیق پہلے سے موجود ہے، ان کے اکاؤنٹس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا (فوٹو: اے ایف پی)

اگر کسی وجہ سے بایومیٹرک تصدیق ممکن نہ ہو تو بینک نادرا ڈیٹا ویریفکیشن، اصل دستاویز کی جانچ یا نوٹرائزڈ تصدیق شدہ شناختی دستاویز قبول کر سکتے ہیں۔
صارفین کے لیے آن لائن یا موبائل ایپ کے ذریعے تصدیق کی سہولت بھی دستیاب ہو گی، بشرطیکہ نظام نادرا کے ڈیٹا سے منسلک ہو۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بائیومیٹرک تصدیق سے متعلق پرانے ضوابط کو منسوخ کر کے ان کی جگہ نئے فریم ورک کے اصول نافذ کیے گئے ہیں۔
یہاں یہ پس منظر بتانا ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے جولائی میں بینکوں کو ایک سرکولر کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ نیا فریم ورک تین ماہ کے اندر نافذ کیا جائے۔ 25 اکتوبر کے بعد اب یہ مہلت ختم ہو چکی ہے، اور تمام نئے اکاؤنٹس اسی فریم ورک کے تحت کھولے جائیں گے۔ ساتھ ہی بینکوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پرانے اکاؤنٹس کی بایومیٹرک تصدیق کو بھی یقینی بنائیں۔
تاہم اس حوالے سے سٹیٹ بینک کے حکام کا کہنا ہے کہ جن صارفین کی بائیومیٹرک تصدیق پہلے سے موجود ہے، ان کے اکاؤنٹس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ ایسے اکاؤنٹس جن کی تصدیق مکمل نہیں ہوئی، انہیں فعال رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نئے کھولے جانے والے تمام اکاؤنٹس کو بھی اسی فریم ورک کے تحت رجسٹر کیا جائے گا۔
اردو نیوز نے اس معاملے پر بینکنگ امور کے ماہرِ معیشت ڈاکٹر اکرام الحق سے رابطہ کیا، جنہوں نے مرکزی بینک کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق نئے فریم ورک کے نفاذ سے صارفین کے لیے ایک واضح اور مربوط نظام دستیاب ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کی بطور مرکزی بینک یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اکاؤنٹس، ڈیجیٹل لین دین اور بینکنگ شعبے کو مؤثر انداز میں ریگولیٹ کرے۔ ماضی میں مختلف نوعیت کے اکاؤنٹس  چاہے وہ بینکوں کے ہوں یا آن لائن ایپس کے ۔کسی یکساں ضابطے کے تحت نہیں کھولے جاتے تھے، جس سے شفافیت کا فقدان پیدا ہو گیا تھا۔‘
ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق نئے فریم ورک کے نفاذ سے صارفین کے لیے ایک واضح اور مربوط نظام دستیاب ہوگا، جس کے تحت وہ اپنے بینکنگ لین دین کو قانونی اور محفوظ طریقے سے انجام دے سکیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بائیومیٹرک تصدیق اور مطلوبہ دستاویزات کو لازمی قرار دینے سے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ جیسے خطرات میں نمایاں کمی آئے گی، جس سے پاکستان کو فیٹف (ایف اے ٹی ایف) سے متعلق تقاضے پورے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔‘

 

شیئر: