Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسٹس فائز عیسیٰ کی فل کورٹ بنانے کی درخواست

جسٹس فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس کو پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کر چکے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا صدارتی ریفرنس پر دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ کا فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست دائر کی ہے۔
پیر کو جسٹس فائز عیسیٰ دو متفرق درخواستیں دائر کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ان کی جانب سے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیے جانے کی پہلے سے دائر درخواست کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے جس میں سپریم کورٹ کے وہ تمام ججز شامل ہوں جو کیس سننے کے لیے اہلیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا کہ چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل آصف سعید کھوسہ اور کونسل کے دیگر ممبران ان کے بارے میں اپنا ذہن بتا چکے ہیں اور صدر کی جانب سے دائر ریفرنس سننے کے مجاز نہیں رہے۔
اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم اور چیف جسٹس سمیت کئی اہم شخصیات پر الزامات لگائے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کے اس اجلاس کو بھی خفیہ قرار دے دیا جس میں صدر کو خط لکھنے پر ان (فائز عیسیٰ) کے خلاف دائر ریفرنس کو خارج کر دیا گیا تھا۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ریفرنسز کے سلسلے مں ان کی چیف جسٹس سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

جسٹس قاضی فائز نے اپنی پٹیشن میں کہا ہے کہ ریفرنسز کے سلسلے مں ان کی چیف جسٹس، جو کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین بھی ہیں، سے دو ملاقاتیں ہوئیں اور ان ملاقاتوں سے قبل دونوں نے سپریم کورٹ کی عمارت کے عقب میں واقع واکنگ ٹریک پر بھی ملاقات کی جس کی دعوت چیف جسٹس نے انھیں دی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ملاقات چونکہ آف دی ریکارڈ تھی اس لیے وہ اس کی تفصیلات کونسل کے ان کیمرہ اجلاس میں دیں گے تاکہ چیف جسٹس اس پر اپنا موقف بھی دے سکیں۔
تاہم دیگر دو ملاقاتوں کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیس نے لکھا کہ چیف جسٹس نے ان ملاقاتوں کو ’نجی ملاقاتیں‘ قرار دیا جو کہ درست نہیں۔ انھوں نے جب شکایات دیکھیں تو چیف جسٹس کو اپنے استعفے کی پیشکش بھی کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اختیار کیا ہے کہ دفتری اوقات میں سپریم کورٹ کی عمارت میں چیف جسٹس کے چیمبر میں ایک جج کی چیف جسٹس سے صرف ریفرنسز سے متعلق ہونے والی ملاقاتیں بالکل بھی ’نجی ملاقاتیں‘ نہیں تھیں۔

 

درخواست میں جسٹس قاضی فائزعیسی نے اپنے خلاف ریفرنس کا جواب مانگا جبکہ وزیراعظم عمران خان پر الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کی جاسوسی کروائی گئی۔ ’اہلیہ اوربچوں کی غیرقانونی طریقے سے جاسوسی کی گئی جس کے لیے پاکستان کے خفیہ آلات اور فنڈز کا ناجائز استعمال کیا گیا۔‘
درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بھول رہی ہے کہ صدر نے ریفرنس وزیراعظم کی ہدایت پردائرکیا۔ ’وزیراعظم نے اہلیہ اور بچوں کو اس معاملے میں گھسیٹا ہے۔ اہلیہ اور بچوں کے ذاتی معاملات کی تحقیقات کی گئیں اور ان کی ذاتی دستاویزات کا بھی جائزہ لیا گیا جبکہ مخلتف اداروں سے خاندان کے کوائف اکھٹے کیے گئے۔ ان اداروں میں نادرا، ایف آئی اے، ایف بی آر اور وزارت داخلہ شامل ہیں۔‘
قاضی فائز عیسی نے کہا کہ بے بنیاد اورغیر متعلقہ تفصیلات اوردستاویزات پر بے بنیاد ریفرنس بنایا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ریفرنس میں تصویر کاایک رخ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ حقیقت ریفرنس سے بلکل برعکس ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل نے بھی ریفرنس کی ’غلط کاریوں‘ کو نظراندازکیا۔ ’وزیراعظم اوران کی ٹیم کے ارادوں کو بھی نظرانداز کیا گیا۔ سپریم جوڈیشل کونسل نے تمام ہمدردیاں بھی وزیراعظم سے ظاہر کیں۔‘

19 اگست کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ ایک خفیہ اجلاس تھا۔ فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

19 اگست کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ یہ ایک خفیہ اجلاس تھا جس کے بارے میں انھیں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خلاف درخواست گزار وحید شہزاد بٹ کو اجلاس میں بلایا گیا  اور ان کا موقف سنا گیا اور وہ اپنے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ اٹارنی جنرل اس اجلاس کے بارے میں آگاہ تھے یا ان کو نوٹس بھی جاری گیا تھا کہ نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 19 اگست کو شام پانچ بجے انھیں فون پر ایک ریفرنس خارج کیے جانے پر مبارکباد کا پیغام موصول ہوا۔ واٹس ایپ پر چیف جسٹس کا تحریر کردہ فیصلہ بھی موصول ہوا اور ٹی وی پر بھی ایسی خبریں چلائی گئیں تاہم انھوں نے ٹی وی نہیں دیکھا۔
انھوں نے کہا کہ اسی دن وہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ بھی کر دیا گیا۔ ’لیکن اتنے دن گزر جانے کے باوجود مجھے نہ تو فیصلے کی کاپی فراہم کی گئی اور نہ دفتری طور پر فیصلے کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست میں کہا ہے کہ ان کے ضمنی جوابات کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جائے۔

شیئر: