Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخواہ: مقامی حکومتیں کتنی مفید؟

نئے بلدیاتی نظام کے بعد مالی اور انتظامی اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل ہونے کی توقع ہے۔ فوٹو: ٹوئٹر
پاکستان تحریک انصاف کا صوبہ خیبر پختونخواہ میں لایا گیا 2015 کا مقامی حکومتوں کا نظام آج بدھ کو ختم ہو رہا ہے۔ 
لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت لائے گئے اس نظام کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا تھا۔ نفاذ کے وقت اس قانون کو بہترین قانون قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظام عوام کے لیے کتنا مفید ثابت ہوا اور اس کے ثمرات کس حد تک نچلی سطح پر منتقل ہوئے، اس کے بارے میں خیبر پختونخوا کے سیاسی و سماجی حلقے مختلف آرا رکھتے ہیں۔
صوبائی وزیر بلدیات شہرام ترکئی کے مطابق اس پروگرام کی کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ عوام مطمئن ہیں۔
’پاکستان تحریک انصاف کے پچھلے دورحکومت میں کرائے جانے والے بلدیاتی انتخابات کے ذریعے عوام کو اتنی سہولیات ملیں کہ دوسرے صوبوں نے بھی خیبر پختونخوا کا مقامی حکومتوں کا ماڈل مانگ لیا۔‘
لیکن حزب اختلاف کے رہنما ان سے متفق نہیں ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی اپنی ہی صوبائی حکومت اور بیوروکریسی مالی اور انتظامی اختیارات نچلی سطح تک منتقلی میں مخلص نہیں ہے۔  

2015 میں منظور ہونے والا بلدیاتی نظام چار سال کے لیے لایا گیا تھا۔ فوٹو: ٹوئٹر

عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی سردار حسین بابک نے ’اردونیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل بتایا گیا کہ مالی اور انتظامی اختیارات کو نچلی سطح پرمنتقل کیا جائے گا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور عوام بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں بھی اس کے ثمرات سے محروم رہی۔
 ’قانون کے مطابق 30 فی صد سے زائد فنڈز بلدیاتی حکومتوں کو دیے جانے تھے بشمول انتظامی اختیارات کے، مگر یہ صوبائی حکومت ہی کا اختیار رہا کہ فنڈز کیسے اورکہاں استعمال ہونے ہیں۔‘
 ’یہ کیسا نظام ہے جس میں اختیار نچلی سطح تک منتقل کیا گیا لیکن ایک ضلع کا ناظم کلاس فور ملازم تک کو ٹرانسفر نہیں کرسکتا تھا۔‘
سردار بابک کہتے ہیں کہ فیس بک یا پھر سوشل میڈیا کی حد تک اس نظام کو کامیاب کہا جا سکتا ہے، مگر زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔
جماعت اسلامی کے سینئر رکن اور تحریک انصاف کے اتحادی کے طور پر مقامی حکومتوں کے قانون میں کلیدی کردارادا کرنے والے ڈاکٹر اقبال خلیل کے مطابق چار سالہ دور اگر ناکام نہیں تھا تو کامیاب بھی نہیں رہا۔
’سسٹم ٹھیک سمت پر جا رہا تھا مگر اب کیونکہ نئی ترامیم لائی جا رہی ہیں، بات پھر صفر پر چلی جائے گی۔‘
تاہم حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ حال ہی میں خیبرپختونخوا اسمبلی سے لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل 2019 کی منظوری کے بعد اختیارات مزید نچلی سطح پر منتقل ہوں گے۔
اس نئے قانون کی منظوری کے بعد صوبے میں ضلعی ناظم کا عہدہ ختم اور اختیارات تحصیل ناظمین کومنتقل ہوں گے، جبکہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں دو شہری مقامی حکومتیں بنیں گی۔ اس قانون میں یہ گنجائش بھی ہے کہ صوبائی حکومت اپنی مرضی سے صوبے کے دوسرے شہروں میں بھی ’دو شہری‘ کونسلوں والا نظام لا سکتی ہے۔

بلدیاتی نظام کا مقصد اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا تھا۔ فوٹو: پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی

صوبائی وزیر بلدیات شہرام ترکئی کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی لوگوں کی زندگیاں مزید آسان کر دے گی۔
’پہلے لوگ تحصیل اور پھر ضلعی ناظم کے پاس آتے تھے مگراب ایک تحصیل ناظم ہوگا جو صرف اپنی تحصیل کا ذمہ دار ہوگا اورعوام بھی صرف ایک ہی جگہ سے اپنے مسائل حل کروائیں گے۔‘
سابق وزیر بلدیات اور جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ کے مطابق مقامی حکومتوں کے قانون میں ترمیم کے بعد اختیار عوام کے بجائے ضلعی انتظامیہ کے پاس چلا جائے گا۔
’اگرآپ ضلعی ناظم کا عہدہ ختم کر رہے ہیں تو جیسے جسم سے سر کاٹ رہے ہیں۔‘
سینئرصحافی شاہد حمید کے مطابق لوکل گورنمنٹ انتخابات سے قبل ضلعی ترقیاتی مشاورتی کمیٹیاں وجود میں آئیں جن کا مقصد اضلاع میں ترقیاتی کاموں پر نظر رکھنا تھا، تاہم بلدیاتی انتخابات کے بعد ان کو ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ جو نہیں ہوا یعنی دو متوازی حکوتیں چلتی رہیں۔
 ’صاف ظاہر ہے کہ حکومت یا پھر ممبران صوبائی اور قومی اسمبلی نہیں چاہتے تھے کہ اختیارات ان کے ہاتھ سے نکلیں۔‘
 تاہم سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے اس نظام کو ایک اچھا تجربہ قرار دیا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ ’جب تک اسمبلیاں نہیں تھیں تو بلدیاتی نظام اچھا جا رہا تھا مگر جب اسمبلیاں آئیں تو شاید فرق پڑا کیونکہ دوسرے بندے (ممبران قومی و صوبائی اسمبلی) بھی حصہ دار بنے۔‘
’اچھا تجربہ تھا مگر (بلدیاتی نمائندے) توقعات پر پورے نہ اترے۔‘

صوبائی وزیر بلدیات کے مطابق عوام کا مطمئن ہونا ہی بلدیاتی نظام کی کامیابی کی دلیل ہے۔ فوٹو: پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی

شہرام ترکئی اس نظام پر ہر قسم کی تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بلدیاتی نظام بہترین تھا اوراس کے قوانین میں ترامیم کے بعد آئندہ بننے والی مقامی حکومتیں مزید بہتر کام کریں گی۔
 ’دیکھیں سیاسی مخالف آپ کی کبھی تعریف نہیں کرے گا اور یہ بات بھی درست ہے کہ شاید بہت سے لوگوں کو فائدہ نہ ملا ہو کیونکہ کچھ جگہوں پر مسائل تھے تاہم اب کی بار ان مسائل پر بھی قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور اسی لیے قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں شہرام ترکئی نے کہا کہ بلدیاتی نمائندوں اور اسمبلیوں کے اراکین میں اختیارات کی جنگ ہمیشہ سے رہی ہے کیونکہ ہر کوئی اپنے ووٹر کے سامنے کارکردگی دکھانا چاہتا ہے۔

شیئر: