Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈاکٹروں کا پنجاب کے ہسپتالوں کی نجکاری پر احتجاج کا عندیہ

آرڈی ننس کے مطابق پرائیویٹائزیشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام ہسپتال مالی طور بھی مکمل خود مختار ہوں گے۔ فوٹو: ان سپلیش
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت نے ایک آرڈیننس جاری کیا ہے جس کے تحت صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کے تحت کام کرنے والے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کا انتظام اب نجی بورڈ آف گورنرز چلائیں گے۔ میڈیکل سپرینٹنڈنٹ یا ایم ایس کا عہدہ ختم کر کے عملے کی سرکاری حیثیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔
آرڈی ننس کے مطابق پرائیویٹائزیشن کا عمل مکمل ہونے کے بعد تمام ہسپتال مالی طور بھی مکمل خود مختار ہوں گے۔
آرڈیننس کے اجراء کے بعد اس پر ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اکرم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا "مجھے تو اس میں کوئی نئی بات نظر نہیں آ رہی کیونکہ یہ ہسپتال ایک حد تک پہلے ہی خود مختار ہیں۔ اس آرڈیننس میں مزید خود مختاری کا کہا گیا ہے لیکن اصل مسئلہ اس نئے نظام کو نافذ کرنے کا ہے۔ محض آرڈیننس سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔"
انہوں نے کہا کہ پہلے نظام کے تحت فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے محکمہ صحت کی طرف دیکھنا پڑتا تھا اب وہی فیصلے ہسپتالوں کے اندر ہو سکیں گے۔

ہسپتالوں میں میڈیکل سپرینٹنڈنٹ یا ایم ایس کا عہدہ ختم کر کے عملے کی سرکاری حیثیت بھی ختم کر دی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ایک سوال پر کہ کیا پرائیویٹ کرنے سے ہزاروں ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف متاثر نہیں ہوگا؟ ان کا کہنا تھا "اگر ہم اس بات کو دیکھیں تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ یہ نظام اور یہی عملہ پہلے کتنا ڈیلیور کر رہا ہے۔ ڈیلیوری سروس کا حال بہت برا ہے، یا آپ نوکریوں کی فکر کر لیں یا مریضوں کی"۔
اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ڈاکٹروں اور عملے کو چوائس دی جائے گی کہ یا تو وہ پرائیویٹ حیثیت سے اپنا کام جاری رکھیں اگر وہ اپنی سرکاری نوکری بحال رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی خدمات محکمہ صحت کے سپرد کر دیں اس صورت میں ان ٹیچنگ ہسپتالوں کے علاوہ کہیں بھی ان کی کھپت ہو گی تو ان ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔
آرڈیننس کے مطابق ایک صوبائی ہیلتھ بورڈ بنے گا جو سرچ کمیٹی کے ساتھ مل کے ہر ہسپتال کی ضروریات کے مطابق اس کے بورڈ آف گورنرز کا انتخاب کرے گا۔ اور یہ بورڈ آف گورنرز ہسپتال کو چلانے کا مجاز ہو گا۔ ہر ہسپتال کے لیے ایک میڈیکل ڈائریکٹر کی تین سال کے لیے تعیناتی ہوگی جو کہ ہسپتال کا سربراہ ہو گا۔ لیکن ہسپتال کے تمام مالی اور تعیناتیوں کے معاملات بورڈ آف گورنرز ہی دیکھے گا۔ تاہم اس آرڈیننس میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ آیا پنجاب کے تمام ہسپتالوں میں اس نئے طریقہ کار کو بتدریج نافذ کیا جائے گا یا یہ ایک ہی وقت میں ہر جگہ نافذالعمل ہوگا۔ اس آرڈیننس سے فی الوقت تمام بڑے ہسپتالوں کی قانونی حیثیت ضرور تبدیل ہو چکی ہے۔

پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز ماضی میں بھی مختلف حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹروں کا ردعمل

پنجاب میں ڈاکٹروں کی تنظیم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اس حکومتی اقدام پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر سلمان حسیب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس آرڈیننس کو ڈاکٹرز پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "حکومت کے پاس ہسپتال چلانے کے فنڈز نہیں ہیں۔ اب ہسپتالوں کو بھی کمائی کا ذریعہ بنایا جائے گا ۔اس حکومتی قدم کو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ ایک تو اس آرڈیننس کے خلاف عدالت جا رہے ہیں، امید ہے عدالت اس کو ختم کرے گی۔ دوسری طرف پنجاب بھر سے نمائندگان کا اجلاس سات ستمبر کو طلب کر لیا گیا ہےجس میں ڈاکٹرز اپنا اگلہ لائحہ عمل مرتب کریں گے"۔
ڈاکٹر سلمان نے بتایا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ہسپتالوں یا سرکاری میڈیکل اداروں کی نجکاری کی بات کی گئی ہے پچھلی حکومت نے بھی لیبارٹریز کو پرائیویٹ کیا تھا لیکن پھر ڈاکٹروں کے شدید ردعمل پر واپس لے لیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب پنجاب میں ایک منتخب حکومت موجود ہے تو آرڈیننس جاری کر کے جمہوریت کی نفی کی گئی ہے۔ 

شیئر: