Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاپنگ کی ادائیگی کے لیے چہرہ ہی کافی

وہ افراد جو گھر سے نکلتے وقت اکثر پیسوں کا بٹوا رکھنا بھول جاتے ہیں ان کے لیے چین نے سہولت پیدا کر دی ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ دکانداروں نے ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کر دیا ہے جس کے تحت سامان خریدنے پر رقم کی ادائیگی کے لیے خریدار کا چہرہ ہی کافی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گاہک اب خریداری کرنے کے بعد صرف ایک مشین کے سامنے کھٹرے ہوتے ہیں جو ان کے چہرے کو ان کے بینک اکاؤنٹ یا رقم ادا کرنے کے ڈیجیٹل نظام سے ملا کر خریدے ہوئے سامان پر پیسے وصول کر لیتی ہے۔ اس مشین میں کیمرہ نصب ہوتا ہے۔  
یوں تو چین کا موبائل سے رقم ادا کرنے کا ںظام دنیا بھر میں سب سے زیادہ جدید ہے لیکن فیشَل پیمنٹ یا چہرے سے ادائیگی کرنے کی ٹیکنالوجی نے موبائل والے نظام کو بھی مات دے دی۔
چین میں ویڈوم بیکری کے افسر ’بو ہو‘ کا کہنا تھا کہ ’مجھے اپنا موبائل فون بھی ساتھ لانا نہیں پڑتا، اب میں بغیر کچھ ساتھ رکھے شاپنگ کرسکتا ہوں۔ ‘

شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر تنقید ہوئی ہے۔  فوٹو: اے ایف پی

چہرے کی پہچان والی یہ ٹیکنالوجی شہریوں پر نظر رکھنے کے لیے پہلے سے چین میں استعمال میں ہے۔ اس کے ذریعے مشکوک افراد اور مجرموں کو پکڑا جا چکا ہے۔
تاہم چین میں، خاص طور پر سنکیانگ کے علاقے میں شہریوں پر نظر رکھنے اور اختلافات سے نمٹنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال پر حکام پر تنقید ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ایک محقق کا کہنا تھا کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال خطرے سے خالی نہیں کیونکہ اس سے ملنے والی معلومات کو لوگوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ سنکیانگ میں رہنے والے ایغور افراد کو مظالم کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
تاہم، سکیورٹی خدشات کے باوجود، چہرے کے ذریعے رقم کی ادائیگی کا یہ نظام لوگوں میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔

 60 فیصد افراد کہتے ہیں کہ انہیں کیمرے میں دیکھنے سے اپنا آپ ’بد صورت‘ نظر آتا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

چین میں ایک ریٹائرڈ شخص ژانگ لمنگ کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک آسان سہولت ہے کیونکہ آپ کچھ بھی جلدی سے خرید سکتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ عام طور پر دکانوں میں خریداری کے طریقے سے مختلف ہے جس میں آپ کو لائن میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑتا ہے۔‘
اس ٹیکنا لوجی کو اس لیے بھی سراہا جا رہا ہے کہ اس سے ملنے والے ڈیٹا اور معلومات کے ذریعے کمپنیاں گاہکوں کی پسند جان سکیں گے جس سے فروخت بڑھانے میں مدد مل سکے گی۔
برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک محقق جیفری ڈنگ کا کہنا تھا کہ اس نظام کے ذریعے دکانوں میں چوری پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔
جہاں لوگ اس ٹیکنالوجی کو ذاتی معلومات کے غلط استعمال کے ڈر سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، وہاں کچھ اس کی تعریف بھی کر رہے ہیں۔
ایک انجینئر لی ڈونگلیانگ کا کہنا تھا کہ ’اس ٹیکنالوجی سے ہماری پرائیویسی برقرار رہے گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ عام طور پر کارڈ کے ذریعے رقم ادا کرتے وقت آپ کو اپنا پاس ورڈ مشین میں لکھنا ہوتا ہے لیکن یہ عمل خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اکثر پیچھے کوئی نہ کوئی کھڑا ہوتا ہے۔
’لیکن اب ہم اپنے چہرے سے رقم ادا کر سکتے ہیں جو ہمارے اکاؤنٹ کو محفوظ رکھے گا۔‘
تاہم کچھ صارفین کو یہ اعتراض ہے کہ رقم کی ادائیگی کے لیے کیمرے میں دیکھنا انہیں ’بدصورت‘ محسوس کراتا ہے۔
اس سروے کے مطابق 60 فیصد سے زائد افراد کا کہنا تھا کہ انہیں کیمرے میں دیکھنے سے اپنا آب ’بد صورت‘ دکھائی دیتا ہے۔
لیکن اس مسئلے کا حل بھی چین نے ڈھونڈ نکالا ہے۔
چین کی آن لائن اور موبائل سے رقم کی ادائیگی کی کمپنی ’علی پے‘ نے کہا ہے کہ جہاں چہرے سے رقم کی ادائیگی کے لیے ان کا نظام نصب ہو گا وہاں مشینوں میں وہ ایسے کیمرے لگائیں گے جن میں خوبصورتی کے ’فلٹرز‘ بھی لگے ہوں گے۔

شیئر: