Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندی کو قومی زبان بنانے کے بیان پر انڈیا میں پھر تنازع

امت شاہ پورے انڈیا میں ہندی زبان کو لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے گذشتہ روز 'ہندی دیوس' یعنی یوم ہندی یا ہندی ڈے کے موقعے پر ایک ٹویٹ سے ملک کا ماحول گرم کر دیا ہے۔ ان کی اس ٹویٹ پر ملک بھر میں خوب بحث ہو رہی ہے۔
14 ستمبر کو انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ 'بھارت مختلف زبانوں کا ملک ہے اور ہر زبان کی اپنی اہمیت ہے لیکن پورے ملک کے لیے ایک زبان ہونا بہت ضروری ہے جو دنیا میں بھارت کی پہچان بنے۔ اگر آج کوئی زبان ملک کو اتحاد کی ڈور سے باندھنے کا کام کر سکتی ہے تو وہ سب سے زیادہ بولی جانے والی ہندی زبان ہے۔'
اس کے بعد ان کی اس ٹویٹ کو جہاں بہت سے لوگوں نے ری ٹویٹ کیا وہیں ان سے کہیں زیادہ لوگوں نے اس کی مخالفت میں بھی آواز اٹھائی۔
ان کی ٹویٹ پر سب سے زیادہ اعتراض جنوبی انڈیا سے دیکھنے میں آیا۔

ہندی زبان نافذ کرنے کے بیان پر انڈیا میں لوگ برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوٹو: پی ٹی آئی 

تمل ناڈو میں سیاسی جماعت ڈی ایم کے سربراہ ایم کے سٹالن نے امت شاہ کے بیان پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے اپنا بیان واپس لینے کے لیے کہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے سوموار کو اپنی پارٹی کی ایک میٹنگ بھی طلب کی ہے۔
امت شاہ کی ٹویٹ کے بعد 'سٹاپ ہنڈی امپوزیشن' اور سٹاپ ہندی امپیریئلزم' جیسے ہیش ٹیگ گردش کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی 'ون لینگوئج' اور 'امت شاہ' بھی ٹرینڈ بن گئے۔
جنوبی انڈیا سے کانگریس کے ایک کارکن نے لکھا کہ 'امت شاہ میری مادری زبان کنڑ ہے، میں ہندی، اردو، تمل، تیلگو اور ملایم میں بات چیت کر سکتا ہوں۔ میں تمام زبانوں بطور خاص ہندی کو بہت چاہتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں۔ لیکن انڈیا ہندی زبان بولنے والا ملک نہیں ہے۔ یہاں کوئی ایک زبان نہیں ہے اور نہ ہی کبھی ہو سکتی ہے۔'
ایک دوسرے صارف اچھاس کندو نے امت شاہ کی ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’انڈیا دنیا کا سب سے قدیم اور عظیم ملک ہے جہاں ہر مذہب، ہر نسل اور ہر زبان برابر ہے۔ دنیا انڈیا کی مثال دیتی ہے۔ ہم اپنے آپ میں منفرد ہیں اور یہی ہمارا حسن ہے۔ لہذا کسی بھی زبان یا ثقافت کو ایک دوسرے پر مسلط کرنا بند کریں۔'
حیدر آباد دکن سے لوک سبھا کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی ٹویٹ کی۔ انہوں نے کہا کہ 'ہندی تمام ہندوستانیوں کی مادری زبان نہیں ہے۔ کیا ہم دوسری مادری زبان کے تنوع اور خوبصورتی کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے؟ آئین کا آرٹیکل 29 تمام انڈینز کو اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافت کو اپنانے کا حق دیتا ہے۔ انڈیا ہندی، ہندو اور ہندتوا سے بہت بڑا ہے۔'

'ہندی، ہندو، ہندوستان'

در اصل انڈیا میں آر ایس ایس (سنگھ پریوار) 'ہندی، ہندو، ہندوستان' کا نعرہ لگاتی رہی ہے اور اس کی بازگشت وقتا فوقتا سنائی دیتی ہے۔
انڈیا کی جنوبی ریاستیں اس معاملے میں بہت سخت موقف رکھتی ہیں اور وہ ہندی بولنا بالکل پسند نہیں کرتیں۔ یہاں کے لوگ یا تو مقامی زبان میں بات کرنا پسند کرتے ہیں یا پھر انگریزی میں۔ جبکہ مہاراشٹر یا گجرات میں اب لوگ ہندی کی طرف مائل ہوئے ہیں لیکن وہ ہندی وہیں بولتے ہیں جہاں اسے بولے بغیر کام نہ چلتا ہو۔
آسام، بنگال، اڑیسہ، یہاں تک کہ بہار میں بھی لوگ علاقائی زبانیں بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تمل ناڈو میں ہندی کی مخالفت ہمیں برصغیر کی آزادی سے قبل سے ہی نظر آتی ہے اور ہندی مخالف تحریک میں کئی درجن لوگوں نے اپنی جان بھی گنوائی ہے۔
حال ہی میں نئی تعلیمی پالیسی کے تحت جب غیر ہندی ریاستوں میں ثانوی سکول میں ہندی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا تھا تو اس کی شدید مخالفت ہوئی تھی، یہاں تک کہ حکومت کو اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا تھا۔
کانگریس نے بھی امت شاہ کے بیان پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ 'زبان کا تنوع ہی ہمارے ملک کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ خود ہندی نے ہی اپنی رواداری اور تنوع کے سبب دوسری زبانوں سے الفاظ حاصل کیے اور خود کو مضبوط بنایا۔ انڈیا اتحاد کی ڈور میں بندھا ہوا ہی ہے، اسے آپ کے نظریات سے خطرہ ہے، زبانوں سے نہیں۔'
جبکہ یوتھ کانگریس نے لکھا ہے کہ ’بی جے پی انڈیا کے جغرافیہ اور آئین کو بھول گئی ہے۔ ملک میں 22 سرکاری زبانیں اور 16 سو 52 مادری زبانیں ہیں۔'
شمالی انڈیا کے بہت سے باشندوں نے بھی امت شاہ کی اس ٹویٹ کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ شمالی انڈیا والوں کو کیسا لگے گا جب ان سے تمل یا تیلگو سیکھنے کے لیے کہا جائے گا۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ ہندی کو ملک کے تمام حصے پر مسلط کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے اور اس سے ملک میں بدامنی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ پہلے بھی زبان کے نام پر  کئی جانوں کا ضیاع ہو چکا ہے اور اردو ہندی کی لڑائی اس کی بڑی مثال ہے۔

شیئر: