Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہر کشمیری کے پاس افسوسناک کہانی ہے‘

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی پانچ خواتین نے کشمیر کا دورہ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا میں انسانی حقوق کی خواتین علمبرداروں نے کشمیر کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی ہر ایک خاتون کے پاس کوئی نہ کوئی افسوسناک کہانی سنانے کے لیے ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی پانچ خواتین نے 17 ستمبر سے 21 ستمبر کے دوران کشمیر کا دورہ کیا اور ان کے مطابق انھوں نے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کی۔
واپسی پر انھوں نے گذشتہ روز منگل کو انڈیا کے دارالحکومت دہلی کے پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کشمیر کی صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اندازوں کے مطابق کشمیر سے 13 ہزار سے زیادہ نوجوان اٹھائے گئے ہیں جنھیں ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا ہے۔
ان خواتین میں نیشنل فیڈریشن اور انڈین ویمن کی اینی راجہ، کنولجیت کور اور پنکھڑی ظہیر کے ساتھ پرگتی شیل مہیلا سنگھٹن (ترقی پسند خواتین تنظیم) دہلی کی پونم کوشک اور مسلم ویمن فورم کی سیدہ حمید شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے بعد ان لوگوں نے کمشیر میں 17 گاؤں کا دورہ کیا اور وہاں طلبہ، اساتذہ، سرکاری اہلکار، ڈاکٹروں، کسانوں، خاتون خانہ، نوجوان لڑکیوں، ماہی گیروں، مزدوروں، کمشیر پولیس اور یہاں تک کہ چند فوجیوں سے بھی بات کی۔

انسانی حقوق کی علمبردار ٹیم نے 'ویمنز وائس: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آن کشمیر' جاری کی۔

اینی راجہ نے کہا کہ ان کی ٹیم محصوری کے 43 ویں دن پہنچی تھی اور اس کے بعد سے مزید سات دن گزر چکے ہیں۔ تمام دکانیں، ہوٹل، سکول،کالج، تعلیمی ادارے، یونیورسٹی سب بند ہے۔ 'وہاں انسانی زندگی المناک ہے۔'
انھوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت 'کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے نے کشمیروں کو متحد کر دیا ہے اور ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ ان کے لیے آخری دھچکہ ہے۔'
اینی راجہ نے مزید کہا: 'ہم نے جس خاتون سے بھی ملاقات کی اس کے پاس کوئی مایوس کن کہانی کہنے کے لیے ہے۔ ان کے بچوں کو فوج اٹھا رہی ہے۔ جب وہ ان کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے پاس جاتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ ہیڈ کوارٹر جا کر فہرست دیکھو جہاں وہ پتھر پھینکنے والوں کی فہرست دیکھتے ہیں جنھیں آگرہ، جودھ پور، امبیدکر نگر، جھجھر کی جیلوں میں رکھا گیا۔'
اینی راجہ نے کہا کہ 'کہ یہ نسل کشی کا ہندوستانی طریقہ ہے اور فوج اس سے دامن نہیں بچا سکتی۔
اس موقعے پر سیدہ حمید نے بتایا کہ انسانیت کراہ رہی ہے اور ایک حسین ریاست 'شہر خموشاں میں تبدیل ہو گئی ہے۔' انھوں نے مزید کہا کہ 'وہاں کے لوگوں کو یہ تک نہیں معلوم کون ان کی مخالفت کر رہے ہیں اور کون ہمدرد ہیں، یعنی وہ ہر بات سے بے خبر ہیں۔'
انڈین میڈیا میں شائع روپورٹوں کے مطابق انھوں نے بتایا کہ 14 سال سے 25 سال تک کے 13 ہزار بچے غائب ہیں اور ان کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے بچے کون سی جیل میں کہاں قید ہیں اور انھیں کیوں اٹھایا گیا ہے۔'
جبکہ اینی راجہ نے کہا کہ 'فوج نوجوانوں پر جھپٹا مارتی ہے، یوں لگتاہے کہ انھیں ان کی صورت سے ہی نفرت ہے۔ جب والدین اپنے بچوں کو بچانے جاتے ہیں تو انھیں 20 ہزار سے 60 ہزار کے درمیان رقم جمع کرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔'

فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کے ارکان نے کشمیر میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کی۔ فوٹو: اے ایف پی

اسی کے ساتھ انسانی حقوق کی رضاکار پونم کوشک نے کہا کہ لوگ اپنے بچوں کو چھپانے لگے ہیں۔ 'جب فوج دروازے پر دستک دیتی ہے تو گھر کا بوڑھا اس امید پر دروازہ کھولتا ہے کہ شاید فوج کو ان پر رحم آ جائے۔'
ان لوگوں نے بتایا کہ کس طرح ریاست وہاں کے شہریوں کو تنگ کر رہی ہے۔ 'کشمیری عام طور پر تین چار مہینے کا راشن رکھتے ہیں لیکن جب فوجی ان کے گھر آتے ہیں تو وہ ان پر کیروسین تیل انڈیل دیتے ہیں۔'
سیدہ حمید کے مطابق نوجوان لڑکیوں نے بتایا کہ اب انھیں فوجی ہراساں کرتے ہیں ان کا نقاب ہٹا دیتے ہیں۔
ان لوگوں نے کہا کہ جہاں تمام کشمیری اہم رہنما جیل میں ہیں وہیں بی جے پی کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو جلسے یا میٹنگ کی اجازت نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار اس ٹیم نے 'ویمنز وائس: فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آن کشمیر' نامی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے فوج کی 'زیادتیوں' کی ایک معینہ مدت کے اندر جانچ کرائی جائے کیونکہ ان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے حالات کو معمول پر لانے کے لیے فوری طور پر فوج اور نیم فوجی دستوں کو واپس بلانے کی تجویز پیش کی ہے اور اس کے ساتھ وسیع پیمانے پر تشدد کے متعلق جانچ اور متاثرین کو ہرجانے کی بات بھی کہی ہے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز پاک‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: