Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ

سیاسی کلاس اپنی بے چہرگی  کے سبب جانی جاتی ہے۔
سیاسی قوتیں بالخصوص ہمارے ملک میں بار بار اسٹیبلشمنٹ سے کیوں مات کھا جاتی ہیں یا زیادہ سے زیادہ ان کی جونیئر پارٹنر کیوں بن کے خوش رہتی ہیں؟  بے خودی بے سبب نہیں غالب
سوائے جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم  گروپ آف پارٹیز کوئی ایسی سرکردہ قومی یا علاقائی جماعت جس کی قیادت موروثی نہ ہو یا موروثیت کے کنٹرول میں نہ ہو؟ کئی جماعتوں کی قیادت تو تیسری نسل کے ہاتھ میں ہے ورنہ پہلی اور دوسری نسل تو متحرک ہے ہی۔
مثلاً مولانا مفتی محمود کے پانچ میں سے چار بیٹے فضل الرحمان، عطا الرحمان، لطف الرحمان، عبید الرحمان اور خود فضل الرحمان کے بیٹے اسعد محمود جمیعت علما اسلام کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کنٹرول کرتے ہیں۔

پاکستان کے اکثر سیاسی جماعتوں کی قیادت موروثی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

عوامی نیشنل پارٹی کا شجرہ خان عبدالغفار خان سے  براستہ ولی خان، بیگم نسیم ولی، اسفند یار، امیر حیدرخان ہوتی اور آزو بازو کے عزیزوں سمیت ماشا للہ چار نسلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی میں عبدالصمد خان اچکزئی کی گراں قدر سیاسی و تاریخی جدوجہد کا ثمر الحمداللہ  تین بیٹوں یعنی محمد خان اچکزئی، محمود خان اچکزئی، حامد خان اچکزئی اور عم زاد مجید خان اچکزئی  کے لئے بہت ہے۔ پارٹی قیادت اور گورنری سے لے کے پارلیمانی و صوبائی و بلدیاتی نمائندگی  تک صمد خان کے ترکے میں ملنے والی سیاسی چادر اہلِ خانہ  کے لیے لامتناہی خیر و برکت کا سبب ہے۔
بلوچستان تو خیر ہمیشہ سے ہی موروثیت کا قلعہ ہے۔ خیبر پختون خوا میں آفتاب شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی سمیت کوئی غیر خاندانی جماعت؟ تحریکِ انصاف کی قیادت بھلے غیر موروثی ہونے کا کتنا ہی دعوی کرے مگر تحریکِ انصاف میں جتنے بھی بااثر ہیں ان میں سے شاہ محمود سے پرویز خٹک تک کتنے غیر موروثی ہیں؟ 

 

صوبہ سندھ میں کوئی ایسا قوم پرست یا غیر قوم پرست سیاسی خانوادہ یا پارلیمانی جماعت جہاں صرف ایک جنا ہی سیاست میں ہو اور اس نے کوئی اور سیاستدان نہ جنا ہو اور نہ وہ کسی سیاستداں سے جنا گیا ہو؟ ( ایم کیو ایم کے دھڑوں کو چھوڑ کے )
 آپ بھلے کتنے بھی بل کھائیں یا مٹھیاں بھینچیں، اگلے اور پھر اس سے اگلے انتخابات میں بھی سیاسی مدرسے کا نصاب یہی رہے گا۔ لہٰذا  کسی سیاست دان  کے بارے میں کسی اور سیاست دان  کا یہ کہنا  کہ یہاں صرف خاندانی بادشاہت ہی کو دوام ہے ایسا ہی ہے جیسے  کوئلہ کیتلی  کے پیندے کو کالا کہے۔
مجھے ذاتی طور پر موروثی سیاست سے کوئی تکلیف نہیں کیونکہ یہ موروثیت ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اگر حکیم  بڈھن کا اپنے لگڑ دادا  کے معجونی نسخے اور حاجی گھسیٹے خان  کی مغل دور سے چل رہی کھچڑے کی خاندانی ریسیپی اپنے لگڑ پوتے کو سونپنے میں کوئی عیب نہیں، اگر پکا راگ خاں صاحبوں کے ہزاروں قابل شاگردوں کے باوجود نسل در نسل  گھرانوں کی گائیکی میں ہی بند رھ سکتا ہے۔ چیتے کا بچہ لگڑ بگا تو ہونے سے رہا۔

 

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ سیاستدان موروثی ہیں کہ غیر موروثی، بنیادی سوال یہ ہے کہ من حیث الطبقہ سیاست دان اسٹیبلشمنٹ سے بار بار مات کیوں کھاتے ہیں؟ شاید یہ کہ سیاست دان اپنے طرزِ زندگی کے اعتبار سے تو اکیسویں صدی میں مگر ذہنی اعتبار سے اٹھارویں صدی تک کے قبائلی و شخصی دور میں رہتے ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ وقت اور حالات کے اعتبار سے حلیہ، حکمتِ عملی اور مہرے چلنے اور بدلنے کے معاملے میں بہتر وسائل، وسائل  کے چابک دست استعمال اور خود کو اردگرد کے رجحانات و تغیرات سے اپ ٹو ڈیٹ اور ہم آہنگ رکھنے کے سبب سیاسی کلاس سے ہمیشہ دو چال اور تین ہاتھ  آگے رہتی ہے۔
بہتر شرح خواندگی، نظم و ضبط اور مفاداتی سوجھ بوجھ سے مالامال اسٹیبلشمنٹ اپنے اندر بہت سے مختلف الخیال ذیلی یونٹ رکھتے ہوئے بھی پبلک امیج  کے بڑے پردے پر اپنے حقیقی قد سے بڑا وجود محسوس ہوتی ہے۔ وہ اپنی کمزوریوں کو اندر ہی اندر دبانے اور خوبیوں کو سامنے لانے کا آرٹ جانتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا وجود اور وزن ہر کسی کو گردن پر محسوس ہوتا ہے مگر کوئی بھی  کسی ایک امیج  پر انگلی رکھ  کے یہ دعوٰی نہیں کر سکتا کہ دیکھیے، دراصل یہ ایک چہرہ ہے اسٹیبلشمنٹ کا۔اسٹیبلشمنٹ کے کئی چہرے ہو سکتے ہیں۔
جبکہ سیاسی کلاس اپنی بے چہرگی  کے سبب جانی جاتی ہے۔ ہر پارٹی قیادت کی قابلیت، حالات پرکھنے اور اس کے مطابق فیصلہ سازی کی صلاحیت میں بھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا چونکہ سیاست دان کی طرح ہر وقت عوام سے براہ راست آمنا سامنا نہیں رہتا، لہٰذا سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے برعکس ہر وقت پبلک امیج کی خوردبین تلے زندہ رہتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے برعکس سیاست دان کی کوئی پرائیویسی نہیں ہوتی۔ یہ سیاست دان کی چوائس نہیں بلکہ پیشے کی مجبوری ہے۔

 

 

سیاسی عمل میں تسلسل ہی بہت ساری خرابیوں کا علاج ہے۔ فوٹو اے ایف پی 

شاید اسی لیے اسٹیبلشمنٹ کے برعکس پولٹیکل کلاس اپنے تضادات اور سوچ کے فرق سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان مسائل کے سبب طشت از بام کمزوریوں کو اپنے ہی طبقے کے فورم پر حل کرنے یا پوشیدہ رکھنے کی صلاحیت سے محروم  ہے۔ لہٰذا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ’مارے بھی جہان خان اور فیصلہ بھی جہان خان کرے‘ طرزِ حکمرانی کے آگے بے بس تھی، ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
اس حالت سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سیاسی عمل بھلے کتنا بھی سازشی ہو مگر چلتا رہے۔ بعض علتوں کا علاج محض تسلسل ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے بہتر یہ بات کون جانتا ہے؟ سیاستدان  یہ سب جاننے کے باوجود عادت و طبیعت سے مجبور ہیں۔ بیسیوں بار تہیہ کرتے ہیں کہ اب ہیروئن کے سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور ہر بار خود سے کیا وعدہ  یہ کہتے ہوئے توڑ دیتے ہیں بس یہ آخری  سگریٹ! اس کے بعد کبھی نہیں۔۔۔
مگر ایک مخلوق ایسی بھی ہے جس کی معاملہ فہمی اور  فیصلہ سازی کی اپنی ہی فارسی ہے۔ یہ مخلوق نہ تو قانونی موشگافیاں اور باریکیاں  سمجھنے کے تکلف میں پڑتی ہے، نہ ہی موروثیت و غیر موروثیت کی کھکھیڑ اس کا دردِ سر  ہے۔ یہ مخلوق اپنے ہی موڈ اور سمجھ کے تابع ہے اور اس مخلوق کا نام ہے عوام ، کہ جس کی فیصلہ ساز ریسیپی آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکی۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر:

متعلقہ خبریں