Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ریاستی آرام میں مخل نہ ہوں  

قصور پر اتنی بڑی نحوست اتری ہوئی ہے یا ایسی بددعا ہے کہ لگتا ہے اب تو بلھے شاہ نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ حسین خان والا کے سینکڑوں بچوں کی ریپ زدہ وڈیوز اور بلیک میلنگ، زینب سمیت 10 بچیوں کے اغوا اور قتل کے سانحے سے لے کر تازہ ترین چھ بچوں کی چونیاں میں پچھلے تین ماہ کے دوران گمشدگی اور ان میں سے تین کی ریپ زدہ لاشیں ویرانے سے ملنا اور تب کہیں جا کے پولیس کا پھرتیاں دکھانا شروع کرنا۔ میں آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے سوچتا ہوں کہ خدایا ہر انسانی جنگل میں معصوم روحیں بھیجنا کیا بہت ہی ضروری ہے؟
ایسی مہربان ریاست کہاں ملے گی جس نے اپنا اقتدارِ اعلیٰ بھی بائیس کروڑ لوگوں میں بانٹ دیا ہے۔
آپ کو کھلی چھوٹ ہے کہ قتل، اغوا، ریپ، گینگ ریپ  کے فیصلے آپس میں باہمی رضامندی سے کر لیں۔ آپ کے بچے آپ کی ذاتی ملکیت ہیں اور ذاتی ملکیت  کے معاملات میں ریاست کیسے مداخلت کر سکتی ہے۔ چاہیں تو قتل کر کے وہیں دفنا دیں، چاہیں تو کسی بھی عمر میں کسی بھی عمر کے شخص سے بیاہ دیں۔ چاہیں تو ہرجانے کے طور پر فریقِ مخالف کو سونپ دیں، چاہیں تو آنکھ کے بدلے آنکھ ، لاش کے بدلے لاش، ریپ کے بدلے ریپ  کے ذریعے انصاف کے تقاضے پورے کر لیں۔ چند پاگلوں کو چھوڑ کے سب آپ کے ساتھ ہیں۔

قصور میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف

کسی اجنبی یا غیر اجنبی کو قتل کرنا بھی آپ کا انفرادی و اجتماعی حق ہے۔ بس ایک ایسی بھیڑ ہی تو جمع کرنی ہے جو الزام اور جرم میں تمیز سے عاری ہو، یا ثواب کمانے کے لیے بے چین ہو یا اپنے غصے، محرومی اور اندر کی بزدلی کی جذباتی نکاسی کر کے سکون پانا چاہتی ہو۔ بس اس بھیڑ چالی مجمع کو  غیرت، مذہب یا نسل کا لال رومال ہی دکھانا ہے۔ باقی کام خود بخود ہوتا چلا جائے گا۔
کچھ بھی کیجیے اور بلادھڑک کیجیے۔ کوئی بال بیکا نہ ہو گا۔ کوئی گواہ نہیں ملے گا، کوئی ادارہ ٹانگ نہیں اڑائے گا۔ سب دیکھیں گے مگر کوئی نہیں بتائے گا کہ دیکھا ہے۔

 

پہلے ہر آدمی کو وہی نظر آتا تھا جو دوسرے  کو نظر آتا تھا۔ اب آپ کو آزادی ہے کہ جو بھی جس رنگ میں چاہے دیکھیں یا نہ دیکھیں۔ بھلے ایک بھی نہ دیکھیں، بھلے ایک کے چار چار دیکھیں۔ کسی کو قتل سے بچانے، کسی زخمی کو ہسپتال پہنچانے، کسی بھاگتی خوفزدہ لڑکی کے پیچھے بھاگنے والوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نابینا ہونا اور ایسے مناظر کو فوری یادداشت سے نکال پھیکنا ہی آج  کی خرد مندی ہے۔ پہلے زمانے کے پرانی سوچ  والے لوگ اس رویے کو بےغیرتی یا بے حسی سمجھتے تھے۔ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ آج اس  بے حسی کو پریکٹیکل طرزِ عمل کے کپڑے پہنا کر خود کو احساسِ جرم سے پاک تسلی اوڑھائی جا سکتی ہے۔
آج آپ بااختیار ہیں کہ اپنی مرضی سے بینا ہو جائیں یا نابینا بن جائیں۔ آخر ریاست بھی تو یہی پریکٹیکل رویہ اپنا کر زندہ ہے۔ اوپر سے نیچے تک آج کا مقبول سچ یہی ہے کہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی شیر کی ایک دن کی زندگی سے ہزار درجے بہتر ہے۔
اس ریاست میں کروڑوں لوگ ایسے بھی ہیں جو انسان نہیں دو ٹانگوں پر چلنے والے  دوپائے ہیں۔ انہیں ڈھائی سے پانچ ہزار روپے ماہانہ میں کوئی بھی صاحبِ استطاعت غلام یا باندی بنا سکتا ہے۔ ہر طرح کا تشدد کر سکتا ہے، بھوکا رکھ سکتا ہے۔ نکال کے پھر رکھ سکتا ہے۔ کسی بھی کارخانے میں، دُکان پر، گھر میں، یہ غلام آقا کی بیوی، بیٹی، بیٹے، حتٰی کہ ڈرائیور اور خانساماں تک کا حکم ماننے کے پابند ہیں۔ میں نے تو آج تک کوئی غلام رکھنے والا غیر پڑھا لکھا آقا نہیں دیکھا۔
مزید پڑھیں

 

 

کچھ عرصے پہلے تک سڑک پر صرف کالے شیشے والی بڑی گاڑیاں ریاست کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا استحقاق رکھتی تھیں۔ اب محمود و ایاز کا جھگڑا نہیں رہا۔ کار اور موٹر سائیکل کی تفریق نہیں۔ اب یہ آپ کا صوابدیدی اختیار ہے کہ لال بتی پر رکتے ہیں یا لال بتی پر رکنے والوں کو گالیاں دیتے ہوئے زن سے آگے نکل جاتے ہیں۔ یک طرفہ ٹریفک  کا سائن بورڈ پڑھتے ہیں یا یہ سائن بورڈ بھی اکھاڑ کے لے جاتے ہیں۔
اب آپ شاید یہ پوچھنے کے لیے کلبلا رہے ہوں کہ جب ریاست اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین  پر نہ خود عمل کر سکتی ہے نہ دوسروں سے کروا سکتی ہے تو پھر ایسی ریاست کا کیا فائدہ ؟ اس کا جواب اقبال بہت پہلے نہایت سہج  سے دے چکے ہیں۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
ریاست کو یہ سوچ کر بھی تو برداشت کیا جا سکتا ہے کہ اچھے وقتوں کے بزرگوں کی نشانی ہے، لہٰذا کونے میں پڑا رہنے دو، جب ہمارے کسی معاملے میں یہ دکھیاری ٹانگ نہیں اڑا رہی تو ہم اسے خوامخواہ  کیوں تنگ کریں۔ ریاست پرغصہ کرنا اور اسے طعنے دینا دراصل اپنے قیمتی وقت کا ضیاع ہے۔

قصور کے علاقے چونیاں میں تین بچوں کی لاشوں کی ویرانے سے برآمد گی کے بعد شہر سراپا احتجاج ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ویسے بھی مشرقی تہذیب میں پیرانہ سالی بذاتِ خود جواز احترام ہے۔ آخر آپ بزرگوں سے بھی تو حقیقی و فرضی و علامتی قصے کہانیاں سن کر چند لمحے کے لیے اپنے دکھ بھول جاتے ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ریاست بھی اس اعتبار سے غنیمت ہے کہ کم ازکم شیخیاں تو بگھارتی ہے۔ ماضی کے کردہ ناکردہ کارناموں کی کہانیاں تو سناتی ہے۔ گپ تو لگاتی ہے۔ کیا آپ کسی تہتر سال کے بزرگ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ ہی کی طرح ون ویلنگ کرے، کول نظر آئے، سکس ایپس بنائے، ڈنڈ پیلے تو پھر تہتر سالہ ریاست سے ایسی توقعات کیوں رکھتے ہیں؟
اب پلیز یہ دلیل مت دیجئے گا کہ تہتر سال کوئی عمر نہیں ہوتی۔ مغرب میں تو دو دو سو سال پرانی ریاستیں ایسی نک سک سے رہتی ہیں کہ دوشیزائیں بھی اس رکھ رکھاؤ کے آگے پانی بھریں، تو ہماری ریاست یہ سلیقہ کیوں نہیں سیکھ سکتی۔
ایسے سوالات پردہ دار تہذیب میں زیب نہیں دیتے۔ ریاست آپ کا پردہ رکھتی ہے لہٰذا آپ پر بھی لازم ہے کہ ریاست کا پردہ رکھیں ۔ گھٹ گھٹ کے مرجائیں پر اُف نہ کریں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: