Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمیشن سیاستدانوں کو طلب نہیں کرے گا

محدود وقت میں چار ہزار منصوبوں کا جائزہ لینا اور اس سے متعلق افراد سے تحقیقات کرنا ممکن نہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی دو سابق حکومتوں کی جانب سے لیے گئے قرضہ جات کے استعمال کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پوچھ گچھ کے لیے کسی بھی سیاسی شخصیت کو طلب نہیں کرے گا۔ 
کمیشن منصوبوں میں عوامی مفاد کی خلاف ورزیوں، قرضوں کی رقم کے غلط استعمال، کرپشن کے طریقہ کار، قواعد کی خلاف ورزیوں، ریگولیٹری اتھارٹیز کے کردار اور متعلقہ قوانین میں موجود خامیوں کی نشاندہی کرے گا۔ 
قرضہ کمیشن نے اپنے کام کی بنیاد رکھ دی ہے جس کے مطابق آگے بڑھا جائے گا لیکن یہ عندیہ بھی دے دیا گیا ہے کہ اتنا بڑا کام چھ ماہ میں مکمل ہونا مشکل ہے۔ 

کمیشن یہ بھی دیکھے گا کس منصوبے میں کرپشن کا عمل انفرادی تھا یا منظم طریقے سے کسی مخصوص گروہ نے کرپشن کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

قرضہ کمیشن کے ایک اہم رکن نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ کمیشن کی تشکیل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ 2008 سے 2018 کے درمیان حکومتوں نے جتنے بھی میگا منصوبے شروع کیے کیا وہ عوامی مفاد میں تھے یا ان کی ضرورت ہی نہیں تھی؟
’یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو منصوبہ بھی منظور کیا گیا اس کے لیے فنڈز نہ ہونے کے باوجود اس کی منظوری کیوں دی گئی؟ اور یہ بھی کہ اگر قرضہ لیا گیا تو اس کی شرائط کیا تھیں اور وہ قرضہ اس منصوبے پر خرچ ہوا یا کہیں اور لگا دیا گیا ہے۔‘ 
کمیشن یہ بھی دیکھے گا کس منصوبے میں کرپشن کا عمل انفرادی تھا یا منظم طریقے سے کسی مخصوص گروہ نے کرپشن کی ہے۔ اس بات کو بھی سامنے رکھا جائے گا کہ متعلقہ منصوبے کے لیے مطلوبہ مہارت کی کمپنیوں کی پاکستان میں موجودگی کے باوجود ٹھیکہ کسی غیر ملکی کمپنی کو کیوں دیا گیا؟ 

کمیشن نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے گذشتہ 10 سال میں میگا منصوبوں کے ان آڈٹ اعتراضات کی تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’یہ طے ہو چکا ہے کہ کمیشن پالیسی، قوانین اور افسران تک محدود رہے گا۔ جائزہ لیں گے کہ قرضوں سے متعلقہ پالیسی درست تھی یا نہیں؟ قوانین اور قواعد کا کہاں تک خیال رکھا گیا؟ اور اس بات کو بھی سامنے رکھا جائے گا کہ رقم کے استعمال میں فرد کی غلطی ہے یا قانون ہی غلط ہے۔‘
کمیشن کے مطابق محدود وقت میں چار ہزار منصوبوں کا جائزہ لینا اور اس سے متعلق افراد سے تحقیقات کرنا ممکن نہیں۔ 
’کمیشن سفارشات مرتب کرکے حکومت کو دے گا۔ جن کی بنیاد پر اگر حکومت نے ضروری سمجھا تو وہ معاملہ نیب یا ایف آئی اے جیسے اداروں کے حوالے کر دے گی۔ جو ان منصوبوں میں کرپشن کی تحقیقات اور متعلقہ افراد سے تفتیش بھی کریں گے۔‘
قرضہ کمیشن کے رکن کے مطابق ’نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے اگر چاہیں گے تو وہ بیوروکریسی کے علاوہ اس وقت کی حکومت میں شامل سیاسی شخصیات کو بھی طلب کر لیں گے۔‘
’ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ ہم بتائیں کہ فلاں دور میں آصف زرداری نے اور فلاں دور میں نواز شریف نے اتنی کرپشن کی۔ ہم نے تو صرف یہ بتانا ہے کہ جو قرضہ لیا گیا اس کی ضرورت تھی یا نہیں اور اگر لےہی لیا گیا تو کیا متعلقہ منصوبے پر ہی خرچ ہوا یا کہیں اور لگا دیا گیا۔‘

قرضہ کمیشن کے رکن کا کہنا تھا کہ کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ میگا منصوبے عوامی مفاد میں تھے یا ان کی ضرورت ہی نہیں تھی؟

’اردو نیوز‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق کمیشن کے سامنے گذشتہ 10 سالوں کے چار ہزار منصوبوں کا ریکارڈ رکھا گیا ہے جبکہ چار سو سے زائد ادارے ان منصوبوں سے وابستہ تھے۔ کمیشن نے تمام منصوبہ جات کا جائزہ لینے کے بجائے مخصوص منصوبوں اور ان کے لیے حاصل کیے قرضوں کی تحقیقات کرکے ان میں کرپشن کا رجحان تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 
کمیشن نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے گذشتہ 10 سال میں میگا منصوبوں کے ان آڈٹ اعتراضات کی تفصیلات بھی حاصل کر لی ہیں جو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نمٹا دیے تھے۔ 
کمیشن کا موقف ہے کہ دیکھنا چاہتے ہیں ’آڈٹ اعتراضات نمٹا کر کسی خاص فرد، کمپنی یا ادارے کو فائدہ پہنچانے یا بچانے کی کوشش تو نہیں کی گئی۔‘
اس کے علاوہ کمیشن نے تحقیقات کے دوران نیپرا، پی پی آر اے سمیت دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز کے کردار اور مختلف ادوار کی پاور پالیسیوں اور ان پالیسیوں کے تحت کیے گئے معاہدوں کا جائزہ لینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کمیشن مصالحت سے متعلق قوانین اور معاہدوں کا بھی جائزہ لے گا۔ 
کمیشن نے ایف بی آر سے گذشتہ دو ادوار میں جاری کیے گئے ایس آر اوز کی تفصیلات بھی مانگ لی ہیں اور تحقیقات کی جائیں گی کہ ان ایس آر اوز کو جاری کرکے سرکار کیا فائدہ پہنچایا گیا؟

شیئر: