Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قندیل بلوچ کے بھائی محمد وسیم کو عمر قید

قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016 کی رات ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ملتان کی ایک عدالت نے قندیل بلوچ کے قتل کے تین سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے ان کے بھائی محمد وسیم کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے قندیل بلوچ کے دوسرے بھائی شاہین اسلم اور مذہبی عالم مفتی عبدالقوی سمیت پانچ ملزمان کو باعزت بری کر دیا ہے جبکہ ایک ملزم محمد عارف کو اشتہاری قرار دیا ہے۔
واضح رہے قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016 کی رات کو ملتان کے علاقے مظفرگڑھ میں ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا۔

والدین نے قندیل کے قتل پر کہا تھا ’وہ ہماری بیٹی نہیں ’بیٹا‘ تھا، گھر کے تمام اخراجات وہی چلا رہی تھی۔‘ فوٹو: اے ایف پی

قندیل بلوچ کے والد محمد عظیم نے بیٹے محمد وسیم اور اسکے ساتھیوں حق نواز، ظفر اور ڈرائیور باسط کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔
پولیس نے قندیل بلوچ کے بھائیوں محمد عارف، اسلم شاہین اور مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیش کیا تھا۔ 
 ملزمان نے اپنی بہن قندیل بلوچ کو سوشل میڈیا پر بے باک ویڈیوز کی وجہ سے غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کیا تھا۔
قندیل بلوچ کون تھیں؟
قندیل بلوچ کے نام سے شہرت پانے والی خاتون کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا، وہ یکم مارچ 1990 کو ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں پیدا ہوئیں، وہ شاہ صدر دین کے علاقے میں پلیں بڑھیں، زیادہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں، وہ والدین کے ساتھ کرائے کے مکان میں ملتان میں رہتی تھیں۔
تاہم شوبز کا حصہ بننے کی تلاش میں وہ لاہور آئیں۔
وہ انتہائی بے باک خیالات اور رویے کی حامل تھیں، یہی وجہ ہے جب پاکستان میں سوشل میڈیا موبائل پر عام ہونا شروع ہوا تو جلد ہی دیگر صارفین کی نظر میں آ گئیں کیونکہ وہ بڑے کھلے انداز میں تصویریں پوسٹ اور خیالات کا اظہار کرتیں۔
2013 میں موسیقی کے مقابلے پاکستان آئیڈل کے لیے آڈیشن دیا جس میں انہیں مسترد کر دیا گیا جب انہیں روتے ہوئے سٹیج سے جانے کے لیے کہا گیا تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ انہی دنوں وہ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ تلاش کی جانے والی 10 پاکستانی شخصیات میں شامل ہوئیں، ایک طرف انٹرنیٹ پر انہیں سب سے زیادہ پاکستانی تلاش کرتے اور دوسری جانب ان کی پوسٹس اور تصاویر پر لوگ سخت تنقید بھی کرتے رہے۔

قندیل بلوچ کا کہنا تھا کہ مفتی عبدالقوی نے انہیں ہوٹل کے کمرے میں بلایا تھا جہاں وہ تصویریں کھیچنی گئیں۔ فوٹو: اے ایف پی

وہ شوبز کا حصہ بننا چاہتی تھیں لیکن انہیں کوئی موقع نہیں دیا گیا تو انہوں نے سوشل میڈیا کو ذریعہ اظہار بنا لیا ان کا یہ طریقہ کامیاب رہا اور وہ مشہور ہوتی چلی گئیں۔
18 مارچ 2016 کو پاکستان کا انڈیا کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچ تھا جس سے دو روز قبل قندیل بلوچ نے ایک ویڈیو فیس بک پر شیئر کی جس میں انہوں نے کہا ’اگر پاکستان جیت گیا تو وہ اس خوشی میں سٹرپ ڈانس کریں گی‘ یہ ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مباحثے ہونے لگے اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، دوسری طرف پاکستان انڈیا سے میچ ہار گیا۔
انہی دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ قندیل بلوچ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہیں، اس کو قندیل بلوچ نے تسلیم کیا اور کہا ’کم عمری میں مرضی کے خلاف شادی کر دی گئی تھی، شوہر تشدد کرتا تھا اس لیے علیحدگی اختیار کی‘۔
قندیل بلوچ ایسے اقدامات پر برہم ہونے کے بجائے محظوظ ہوتیں جس کا اظہار ان کے انٹرویوز میں ملتا ہے۔
وہ کہتی تھیں  کہ’میری زندگی ہے، جیسی چاہے گزاروں۔‘
اس دوران کچھ نیوز چینلز نے ان کے انٹرویوز بھی نشر کیے۔

قندیل بلوچ کے قتل پر پاکستان کے روشن خیال طبقے کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ فوٹو: اے ایف پی

جون 2016 میں قندیل بلوچ ایک بار پھر اس وقت تنازع میں گِھریں جب انہوں نے معروف مذہبی شخصیت مفتی عبدالقوی کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو انٹرنیٹ پر شیئرکیں۔
اس حوالے سے قندیل بلوچ کا کہنا تھا کہ مفتی عبدالقوی نے انہیں ہوٹل کے کمرے میں بلایا تھا جہاں وہ تصویریں کھیچنی گئیں۔ تصاویر کافی بے تکلفانہ تھیں جن میں قندیل نے مفتی قوی کی قراقلی ٹوپی پہن رکھی تھی۔
قندیل بلوچ کا قتل
یہ سب منظر عام پر آنے کے بعد قندیل مزید شہرت اختیار کر گئی اور وہ نیوز چینلز کی کمزوری بھی بن گئیں، اس دوران ان سے رابطے ہوتے اور انٹرویوز نشر ہوتے رہے۔ جن میں سے ایک میں انہوں نے کچھ خدشات کا اظہار بھی کیا تھا۔
وہ میڈیا پر چھائی ہوئی تھیں اور انہی دنوں جولائی 2016 میں وہ والدین سے ملنے ملتان گئیں اور اگلے روز ان کے قتل کی خبر نشر ہوئی اور لاش کی تصاویر بھی سامنے آئیں، بھائی وسیم عظیم نے ان کو رات کے وقت گلا دبا کر قتل کر دیا تھا۔
جس پر پاکستان کے روشن خیال طبقے کا سخت ردعمل سامنے آیا۔
وہ مفرور تھا تاہم گرفتار ہوا، اس کیس میں مفتی عبدالقوی کو بھی شامل تفتیس کیا گیا۔
والدین نے قندیل کے قتل پر کہا تھا ’وہ ہماری بیٹی نہیں ’بیٹا‘ تھا، گھر کے تمام اخراجات وہی چلا رہی تھی۔‘
تاہم پچھلے ماہ ہونے والی سماعت نے والدین نے بیٹے وسیم عظیم کو معاف کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

شیئر: