Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہریوں کو معلومات تک رسائی کیسے؟

کیا ان قوانین پرعمل درآمد شروع ہو گیا ہے اور لوگوں کو یہ معلومات ملنا شروع ہو گئی ہیں؟ فوٹو: روئٹرز
کیا آپ کو معلوم ہے کہ امور حکومت سے متعلق اکثر معلومات جاننا قانوناً آپ کا حق ہے۔ اگر آپ کسی سرکاری نوکری کے حصول میں ناکام رہے ہیں تو آپ کو حق حاصل ہے کہ متعلقہ ادارے سے میرٹ لسٹ طلب کر سکیں۔ آپ کے  ٹیکس کے پیسوں سے حکومت نے کتنے ہسپتال اور سکول بنائے؟ کتنی رقم انفراسٹرکچر پر خرچ کی اور کتنی میگا پراجیکٹس پر؟ حتیٰ کہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے کچن پر کتنے اخراجات آئے اور کس کس کو سرکاری خزانے سے تحائف ملے۔
اطلاعات تک رسائی کے نئے قانون (آر ٹی آئی) کے مطابق یہ سب معلومات آپ ایک درخواست کے ذریعے وفاقی حکومت، پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے تمام محکموں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ قوانین تمام محکموں کو پابند کرتے ہیں کہ عوامی اہمیت اور اپنے کام اور بجٹ کی زیادہ تر معلومات اپنی ویب سائٹس اور تصانیف کے ذریعے خوبخود فراہم کریں۔

قانون کے تحت وزارتیں اور محکمے معلومات فراہم کرنے کی پابند ہیں۔ فوٹو: وکی پیڈیا

واضح رہے کہ صوبہ بلوچستان کو اس رپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا کیونکہ بلوچستان کے آرٹی آئی قانون میں اداروں کی جانب سے معلومات کی از خود فراہمی سے متعلق کوئی شق سرے سے موجود ہی نہیں۔
لیکن کیا ان قوانین پرعمل درآمد شروع  ہو گیا ہے اور لوگوں کو یہ معلومات ملنا شروع ہو گئی ہیں؟ اس سلسلے میں پاکستان میں کام کرنے والی ایک تنظیم سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹیوز(سی پی ڈی آئی) نے پاکستان میں معلومات تک رسائی کی موجودہ صورتحال پرایک  تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی محکموں کی جانب سے آرٹی آئی قانون کے تحت مجموعی طور پر 31 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں اور نتائج کے مزید تجزیے کے مطابق خیبر پختونخوا کے صوبائی محکموں کی جانب سے اوسطاً 52 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

وفاقی اور صوبائی محکموں نے 31 فیصد معلومات فراہم کیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اگرصوبے میں مختلف محکموں کا آپس میں موازنہ کیا جائے تو سب سے زیادہ یعنی 88 فیصد معلومات محکمہ انفارمیشن و پبلک ریلیشنز جبکہ سب سے کم صرف21 فیصد معلومات محکمہ معدنیات کی جانب فراہم کی گئی ہیں۔
پنجاب آرٹی آئی قانون میں معلومات کی از خود فراہمی کی شق 4 کے تحت صوبائی محکموں کی جانب سے اوسطاً صرف 38 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں جبکہ دیگر محکموں کے مقابلے میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے سب سے زیادہ یعنی 59 فیصد معلومات اور بورڈ آف ریوینیو کی جانب سب سے کم یعنی صرف 12 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

قانون کے تحت مجموعی طور پر 31 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ فوٹو: اردو نیوز

وفاقی وزارتوں اور محکموں کی جانب سے معلومات کی از خود فراہمی کی شق 5 کے تحت اوسطاً صرف 25 فیصد معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان میں سے پاکستان تحفظ ماحول ایجنسی نے سب زیادہ 44 فیصد معلومات فراہم کر رکھی ہیں جبکہ صرف 12 فیصد معلومات وزارت ہاؤسنگ پاکستان کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔
صوبہ سندھ کی صورتحال انتہائی ابتر ہے جہاں مجوعی طور پراوسطاً 12 فیصد معلومات سندھ آرٹی آئی قانون کی معلومات کی ازخود فراہمی کی شق 6 کے تحت دستیاب ہیں جبکہ سب سے زیادہ 21 فیصد معلومات محکمہ فاریسٹ اینڈ وائلڈ لائف اور صرف 6 فیصد معلومات محکمہ آبپاشی سندھ کی جانب سے فراہم کی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا حکومت کے محکموں نے سب سے زیادہ جوابات دیے۔ فوٹو: ٹوئٹر

معلومات کے حصول کی درخواستوں پر کارروائی کیے جانے پر یہ دیکھا گیا ہے کہ درخواستوں پر ردعمل کی شرح صرف 13 فیصد رہی جبکہ صرف3.7 فیصد درخواستوں پر معلومات فراہم کی گئیں۔
مجموعی طور پر527 درخواستیں سرکاری اداروں کو ارسال کی گئیں جن میں 100 پنجاب، 100خیبرپختونخوا، 100 سندھ اور127 وفاق کو دی گئی ہیں۔ یہ درخواستیں عوامی دلچسپی اور مختلف مسائل سے متعلق تھیں۔ ارسال کردہ 527 درخواستوں میں سے سرکاری اداروں کی جانب سے صرف71 جوابات موصول ہوئے جن میں پنجاب کے 12، وفاق کے 14اور خیبر پختونخوا کے 45 جوابات شامل ہیں، ان71 جوابات میں سے بھی صرف 20 محکموں کی جانب سے مطلوبہ معلومات فراہم کی گئیں۔

رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے سب سے کم معلومات فراہم کیں۔ فوٹو: ٹوئٹر

سندھ اور بلوچستان سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ رپورٹ کے نتائج صرف اداروں کی جانب سے کارروائی کیے جانے کے مرحلے پر ہی اخذ کیے گئے ہیں اور کسی بھی مرحلے میں اپلیٹ فورمز پر شکایات ارسال نہیں کی گئیں۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی کے نفاذ کے لیے ابھی طویل اور کٹھن سفر کرنا باقی ہے، محض معلومات تک رسائی کے موثر قوانین بنا دینا ہی کافی نہیں ہے جب تک کہ سرکاری اداروں کی جانب سے رازداری کے کلچر کو معلومات عام کیے جانے سے تبدیل نہیں کر دیا جاتا۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: