Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا حکمرانوں کے سینے میں دل نہیں ہوتا؟

حکمرانی کا غرور رحم دلی، ایثار اور صلہ رحمی ختم کر دیتا ہے: فائل فوٹو اے ایف پی
راج نیتی بھی گورکھ دھندا ہے، عوام کو سبز باغ دکھاؤ، بس سب اچھا اچھا کہتے جاؤ۔ اعدادوشمار کے کھیل کھیلنے میں ماہر سیاست دان بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں اور اصل میں عوامی معاملات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں میں جہاں اے سی ٹھنڈی ہوا پھینکتے ہیں وہاں گرمی دھوپ میں کام کرنے والے عوام کے کرب کو سمجھنا ناممکن ہے۔ عوام چاہے قدرتی آفات کی زد میں ہوں، معاشی بدحالی کا شکار ہوں یا وبائی بیماریاں ان کو موت کی دہلیز پر پہنچا دیں لیکن اسمبلی کے ایوان میں صرف ’میں اور میرا لیڈر مہان‘ پر گھنٹہ گھنٹہ تقریریں ہوتی ہیں۔

ایسا لگتا ہے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے سینے میں دل نہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ایسا لگتا ہے حکمرانوں اور سیاست دانوں کے سینے میں دل نہیں۔ الیکشن سے پہلے اشرافیہ غریب عوام کے صدقے واری جاتی ہے، ان کو گلے لگاتی ہے ان کے ساتھ تصاویر بنوائی جاتی ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر جو پوسٹ کرنی ہوتی ہیں۔
ووٹ کی خاطر ایک آٹے کا تھیلا چار سیاست دان مل ایک غریب کو پکڑاتے ہیں۔ سامنے کیمروں کی قطار ہوتی ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں نیکی کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر، بیوہ، یتیم، مسکین کو راشن، سلائی مشین اور ہزار روپے کے نوٹ والا لفافہ دینے سے پہلے اس کی عزت نفس کو کچل دیا جاتا ہے تب جا کر حکمرانی کے غرور کو سکون ملتا ہے اور سیٹ ملتی ہے۔ یہی سیاست دان کی سیاسی ریلیوں میں ان ہی کا ووٹرز  کچلا جائے تو مڑ کر دیکھتے بھی نہیں۔ کوئی ان کے جلسوں میں بے ہوش ہوجائے یا بھگدڑ مچ جائے تو کارکنوں کو پوچھتے تک نہیں، تقریر جاری رکھتے ہیں، بس اس میں تعطل نہیں آنا چاہیے۔
مزید پڑھیں

 

عوام بھی سادہ لوح ہیں، خوش ہوجاتے ہیں اور اپنی قسمت ان کے ہاتھ میں دے کر سب کچھ اللہ کی رضا سمجھ کر چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں۔ ویسے بھی دال دلیے کے لیے جہدوجہد کچھ سوچنے ہی نہیں دیتی۔ بھوکے پیٹ، لاغر جسم اور بنیادی سہولتوں کو ترسنے والے انقلاب لانے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

رواں برس کراچی میں بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے کے واقعات میں 25 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔

کراچی ایک یتیم شہرہے، اس کا کوئی والی وارث نہیں، کچرے کے نام پر بھی یہاں کچرہ سیاست شروع ہوگئی ہے۔ اس کچرہ سیاست میں کچرہ اب تک کراچی کی سڑکوں پر پڑا تبدیلی کا منہ چڑا رہا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو ’روک سکو تو روک لو‘ پھر بارش کی آمد ہوئی تو شہری کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے۔ ان کے گھروں میں پانی آ گیا لیکن سندھ کی حکمران جماعت کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کیا فرمایا ’جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتی ہے‘ بس انتظامی غفلت کا ذمہ دار بھی بارش کو قرار دے کر وہ بری الذمہ ہوگئے۔
وہ کیا کہتے ہیں حکمرانی کا غرور انسان سے رحم دلی، ایثار اور صلہ رحمی کو دور کردیتا ہے۔ لاڑکانہ میں بچہ کتے کے کاٹنے سے ہلاک ہوگیا تو صوبائی حکومت کے مطابق اس میں سرکار کا کیا قصور، کتا جانے اور بچہ جانے، سگ گزیدگی بڑھتی جارہی ہے لیکن حکام بچے کی موت کا ذمہ دار والدین کو قرار دے کر بری الذمہ ہوگئے۔
آگے بھی کتے لوگوں پر حملہ آور ہوتے رہیں گے، لیکن نہ حکومت کتوں کو اینٹی ریبیز ویکسین لگائے گی نہ ہی انسانوں کے لیے انجیکشن اور ویکسین صوبے میں دستیاب ہوگی۔ تاہم دنیا کو دکھانے کے لیے کتا مار مہم شروع ہوجائے گی۔ سب کتوں کو ریبیز نہیں ہے، سب پاگل نہیں ہیں۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں ایک اعلیٰ شخصیت کے گھر سے کروڑوں روپے اور زیورات نکل آتے ہیں، جیسے گھر نہیں سونے کی کان ہو لیکن جانور اور انسان کے لیے ویکسین دستیاب نہیں۔

سندھ میں طبی سہولیات کی قلت اور معیار کی خرابی مسلسل تنقید کا نشانہ رہتی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اب دو روز زلزلہ آیا تو درودیوار ہل گئے۔ سب لوگ خوف کے مارے گھروں، دفاتر سے باہر آ کر کلمے کا ورد کرتے رہے جس پر انسان اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ دنیا عارضی جگہ ہے اور صرف ہمارے اعمال ہمارے کام آئیں گے۔
اسلام آباد تو محفوظ رہا لیکن کشمیر میں میرپور جاتلاں میں تباہی ہوئی، 37 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوگئے، تاہم مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان زلزلہ آنے کے بعد ہنسی مذاق کرتی رہیں ان کے مطابق یہ نشانیاں ہیں کہ جب کوئی تبدیلی آتی ہے تو نیچے بے تابی ہوتی ہے تو یہ تبدیلی ہے کہ زمین نے کروٹ لی۔ ہونا تو چاہیے تھا کہ وہ تقریر ختم کرتیں، باہر نکل جاتیں اور شرکا سے بھی یہ کہتیں کہ زلزلے کی شدت زیادہ ہے، تھوڑی دیر کے لیےعمارت خالی کر دینی چاہیے لیکن سیاست دان کے لیے تقریر مکمل کرنا سب سے ضروری ہے، چاہے آندھی، طوفان یا زلزلہ ہی کیوں نہ آ جائے۔
اب مچھروں کے وار سے عوام مر رہے ہیں۔ مشیر صحت ظفر مرزا کے مطابق 10 ہزار لوگ ڈینگی سے متاثر ہیں۔ اب مچھر تو پی ٹی آئی کی ہی حکومت میں پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ایک مچھر کی عمر دو ہفتے سے زائد نہیں ہوتی تو یہ پچھلی حکومت تو چھوڑ کر نہیں گئی اب حکومت کیا کرے گی لوگوں کو اذیت سے بچانے کے لیے کام کرے گی یا پھر سیاست کے پاس دل نہیں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: